Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 74
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِهَةً١ۚ اِنِّیْۤ اَرٰىكَ وَ قَوْمَكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا اِبْرٰهِيْمُ : ابراہیم لِاَبِيْهِ : اپنے باپ کو اٰزَرَ : آزر اَتَتَّخِذُ : کیا تو بناتا ہے اَصْنَامًا : بت (جمع) اٰلِهَةً : معبود اِنِّىْٓ : بیشک میں اَرٰىكَ : تجھے دیکھتا ہوں وَقَوْمَكَ : اور تیری قوم فِيْ ضَلٰلٍ : گمراہی مُّبِيْنٍ : کھلی
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابرہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر سے کہا کہ کیا تم بتوں کو معبود قرار دیتے ہو ؟ بیشک میں تو تمہیں اور تمہیں قوم کو کھلی ہوئی گمراہی میں (مبتلا) دیکھتا ہوں،113 ۔
113 ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر حاشیے پہلے گزر چکے، آپ (علیہ السلام) ایک بت پرست وستارہ پرست قوم کے درمیان اپنے آبائی ملک بابل یاکلدان (موجودہ عراق) میں بہ حیثیت مبلغ توحید، دعوت اسلام و توحید سب سے پہلے اپنے خاندان ہی کے رکن اعظم یعنی والد کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ازر عربی توریت میں اس نام کا املا تارح ملتا ہے۔ اور انگریزی میں تیرا Terh اور تالمود میں تراء۔۔ جو لوگ علم اللسان کے مبادی سے بھی واقفیت رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایک ہی نام مختلف زبانوں میں جاجاکر کیسے کیسے عجیب تلفظ اختیار کرلیتا ہے۔ فلسطین کے قدیم مسیح مورخ یوسیبیس (264 تا 349 ء) کے ہاں ” آشر ‘ یا ” ہاتھر “ آیا ہے۔ ان دونوں تلفظوں کی مشابہت ومماثلت آزر سے بالکل ظاہر ہے۔ اور آزر وزارہ بھی اگر ایک ہی خاطر شروع سے کہتا آرہا ہے کہ آزر حضرت ابراہیم خلیل (علیہ السلام) کے والد کا نہیں بلکہ چچا کا نام تھا۔ اور حال کے ایک آدھ جدید گمراہ فرقے بھی یہی کہہ رہے ہیں، لیکن ان میں سے کسی کے پاس بھی دلیل کے نام سے کوئی چیز نہیں، رہے محض احتمالات وامکانات، یہ تو ہر قطعی سے قطعی مسئلہ میں بھی پیدا کئے جاسکتے ہیں۔ اب۔ کو اس کے بالکل کھلے ہوئے ظاہر معنی سے ہٹا کر مجازی استعمال کی طرف لے جانے کے لئے آخر کوئی معقول وجہ بھی تو ہو۔ (آیت) ” اتتخذ اصناما الھۃ “۔ تارح (آزر) کی بت پرستی کا ذکر موجودہ توریت میں بھی ملتا ہے :۔ ” خداونداسرائیل کا خدا یوں فرماتا ہے کہ تمہارے باپ دادے تارح ابراہام کا باپ اور نحور کا باپ قدیم زمانہ میں نہر کے پار رہتے تھے اور غیر معبودوں کی بندگی کرتے تھے “۔ (یشوع۔ 24:2) اور یہود کی مستند کتاب جیوش انسائیکلوپیڈیا میں اتنا اور بھی ہے :۔ ” وہ علاوہ بت پرست ہونے کے بت ساز اور بت فروش بھی تھا “۔ (جلد 12 صفحہ نمبر 107) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ مشغولی مع الحق اور مناظرۂ اہل باطل میں کوئی تنافی نہیں، بشرطیکہ حدود سے تجاوزنہ ہو۔
Top