Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 69
وَ مَا عَلَى الَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّ لٰكِنْ ذِكْرٰى لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
وَمَا : اور نہیں عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَتَّقُوْنَ : پرہیز کرتے ہیں مِنْ : سے حِسَابِهِمْ : ان کا حساب مِّنْ : کوئی شَيْءٍ : چیز وَّلٰكِنْ : اور لیکن ذِكْرٰي : نصیحت کرنا لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَّقُوْنَ : ڈریں
اور جو لوگ بچتے رہتے ہیں ان پر ان کی باز پرس کا کوئی اثر نہیں پہنچے گا البتہ (ان کے ذمہ بھی) نصیحت ہے شاید کہ وہ بچنے لگیں،103 ۔
103 ۔ (اور اس کوشش کا اجر تو ان یاددہانی کرنے والوں کو مل ہی جائے گا) مطلب یہ ہے کہ بعض جگہ مومنین کو بالکل علیحدگی سے تو تعذر ہوگا، مثلا آغاز اسلام ہی میں کہ جب مومنین مسجد کعبہ میں مصروف طواف و عبادت ہوتے۔ اور وہیں مشرکین بھی اول فول بکتے ہوتے۔ یا آج بھی اسکولوں میں، بازاروں میں، دفتروں میں، ریل پر، جہاز پر، لاری پر غرض کثرت سے موقع مسلمانوں اور بےدینوں کے اجتماع کے پیش آسکتے ہیں تو ایسے سب موقعوں کے لئے مسلمانوں کو سمجھایا ہے کہ ان بےدینوں کی بک جھک کا کوئی اثر تمہارے نامہ اعمال پرتو پڑے گا نہیں، اپنی بیہودہ گوئی کے ذمہ دار تمام تر وہ خودہی ہیں۔ تم اس سے ذرا نہ گھبراؤ۔ ضرورت کے وقت تم ان کے ساتھ رہ سکتے ہو۔ البتہ اتنا تم پر بھی واجب ہے کہ اپنے امکان ووسعت بھر انہیں تلقین وتبلیغ کرتے رہو، ممکن ہے وہ راہ راست پر آہی جائیں اور نہ بھی آئیں جب بھی تمہارا اجر تو کہیں گیا نہیں۔ (آیت) ” من شیء “۔ میں۔ من۔ استغراق کیلئے ہے یعنی کچھ بھی اثر نہ پہنچے گا۔ من زائدۃ للاستغراق (روح) (آیت) ” الذین یتقون “۔ یعنی وہ لوگ جو کفر، بےدینی معاصی سے بچے ہوئے ہیں۔ (آیت) ” من حسابھم “۔ ضمیر مشرکین اور بےدینوں یعنی تبلیغ و تفہیم میں لگے رہیں اپنی حسب قدرت واستطاعت۔ ای یذکرونھم ویفھمونھم ‘(کبیر۔ عن ابن عباس) لکن علیھم ان یذکروھم ویمنعوھم عماھم فیہ (روح) ولکن علیھم تذکرۃ لھم وموعظۃ (جلالین) (آیت) ” ذکری لعلھم یتقون “۔ کہ اس موعظت سے شاہد کہ وہ لوگ بھی تمسخر سے باز آجائیں۔ والمعنی لعل ذلک الذکری یمنعھم من الخوض (کبیر)
Top