Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 51
وَ اَنْذِرْ بِهِ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُّحْشَرُوْۤا اِلٰى رَبِّهِمْ لَیْسَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ وَلِیٌّ وَّ لَا شَفِیْعٌ لَّعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
وَاَنْذِرْ : اور ڈراویں بِهِ : اس سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَخَافُوْنَ : خوف رکھتے ہیں اَنْ : کہ يُّحْشَرُوْٓا : کہ وہ جمع کیے جائیں گے اِلٰى : طرف (سامنے) رَبِّهِمْ : اپنا رب لَيْسَ : نہیں لَهُمْ : انکے لیے مِّنْ : کوئی دُوْنِهٖ : اس کے سوا وَلِيٌّ : کوئی حمایتی وَّلَا : اور نہ شَفِيْعٌ : سفارش کرنیوالا لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَّقُوْنَ : بچتے رہیں
اور آپ اس (وحی شدہ قرآن) کے ؟ ذریعہ سے انہیں ڈرائیے جو اندیشہ رکھتے ہیں اس امر کا کہ وہ اپنے پروردگار کے پاس جمع کئے جائیں گے اس حال میں کہ ان کے حق میں نہ کوئی مددگار ہوگا نہ کوئی شفیع، شاید کہ وہ ڈرنے لگیں،77 ۔
77 ۔ ( اور ایمان وطاعت کی راہ اختیار کرلیں) (آیت) ” الذین یخافون ان یحشروا “۔ پیغمبر اپنا وعظ سناتا تو سب کو ہے لیکن اس سے نفع اندوز بس وہی ہوتے ہیں جن کے دلوں میں خوف خدا وخوف عاقبت کسی درجہ میں موجود ہوتا ہے، یا جن کا ضمیر کسی حد تک زندہ ہوتا ہے۔ خص فی ھذہ الایۃ الذین یخافوں الحشر لان انتفاعھم بذلک الانذار اکمل بسبب ان خوفھم یحملھم علی اعداد الزاد لیوم المعاد (کبیر) (آیت) ” لعلھم یتقون “۔ کہ شاید آپ کے موعظہ سے متاثر ہو کر وہ پوری طرح راہ ہدایت پاجائیں راہ ایمان پر ثابت قدم ہوجائیں، ای فی المستقبل وھو الثبات علی الایمان (قرطبی) (آیت) ” وانذربہ “۔ ضمیر اس وحی کی جانب ہے جس کا ذکر ابھی آچکا ہے۔ والضمیر لما یوحی الی (بیضاوی) ای انذر بما اوحی الیک (بحر) ای بالقران (قرطبی) قال ابن عباس والزجاج بالقران (کبیر) انذار یوں تو پیغمبر کے ذ مہ مطلق وعام صورت میں بھی واجب ہے لیکن یہاں مقصود انذار خاص ہے۔ جو وہیں ہوتا ہے جہاں نفع معتدبہ متوقع ہوتا ہے۔ انذار کے معنی یہاں اعلام بھی کئے گئے ہیں۔ الانذار الاعلام (قرطبی) الانذار الاعلام بموضع المخالفۃ (کبیر) (آیت) ” ولی ولا شفیع “۔ یہ غیر اللہ کے متعلق دستگیری یا شفاعت کا عقیدہ بہت زائد پھیلا ہوا تھا۔ اور مشرکین کے علاوہ یہود ونصاری تک میں عام تھا، اسی لئے اس کی تردید بار بار اور شدومد سے آئی ہے۔ اس سے اس شفاعت کی نفی نہیں ہوتی جو اہل سنت کے نزدیک انبیاء وملائ کہ وصالحین کی طرف سے ثابت ہے، اس لئے کہ یہ شفاعت مستقلا واصالۃ نہیں بلکہ حق تعالیٰ ہی کی طرف سے نیابۃ ہوگی (آیت) ” من دونہ “۔ اور الاباذنہ کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے۔ قولہ لیس لھم من ولی ولا شفیع لانھا فی مذھبنا فی اثبات الشفاعۃ للمومنین لان شفاعۃ الملائکۃ والرسل للمومنین انما تکون باذن اللہ فکلماکانت تلک الشفاعۃ باذن اللہ کانت فی الحقیقۃ من اللہ تعالیٰ (کبیر) (آیت) ” الی ربھم “۔ یہ مطلب نہیں کہ حق تعالیٰ کسی سمت وجہت میں قائم ہیں اور حشر وہاں ہوگا بلکہ مرادصرف وہ مقام ہے جو پروردگار نے خلق کے اجتماع اور فیصلہ کیلئے مقرر کیا ہے۔ المراد المکان الذی جعلہ ربھم لاجتماعھم وقضاءھم (کبیر) المراد الحشر الی المکان الذی جعلہ عزوجل محلا لاجتماعھم وللقضاء علیھم (روح)
Top