Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 50
قُلْ لَّاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّیْ مَلَكٌ١ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰۤى اِلَیَّ١ؕ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُ١ؕ اَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ۠   ۧ
قُلْ : آپ کہ دیں لَّآ اَقُوْلُ : نہیں کہتا میں لَكُمْ : تم سے عِنْدِيْ : میرے پاس خَزَآئِنُ : خزانے اللّٰهِ : اللہ وَلَآ : اور نہیں اَعْلَمُ : میں جانتا الْغَيْبَ : غیب وَلَآ اَقُوْلُ : اور نہیں کہتا میں لَكُمْ : تم سے اِنِّىْ : کہ میں مَلَكٌ : فرشتہ اِنْ اَتَّبِعُ : میں نہیں پیروی کرتا اِلَّا : مگر مَا يُوْحٰٓى : جو وحی کیا جاتا ہے اِلَيَّ : میری طرف قُلْ : آپ کہ دیں هَلْ : کیا يَسْتَوِي : برابر ہے الْاَعْمٰى : نابینا وَالْبَصِيْرُ : اور بینا اَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ : سو کیا تم غور نیں کرتے
آپ کہہ دیجیے کہ میں تم سے یہ تو نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں،75 ۔ میں تو بس اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے پاس آتی ہے، آپ کہیے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہوسکتے ہیں ؟ تو کیا تم غور نہیں کرتے،76 ۔
75 ۔ (کہ لوازم بشریت سے منزہ ہوں) (آیت) ” قل لا اقول لکم عندی خزآئن اللہ “۔ یعنی نہ میری ملک وقدرت کامل کہ جس کو جو چاہوں عطا کردوں۔ (آیت) ” ولا اعلم الغیب “۔ اور نہ میرا علم کامل و محیط کہ وہ خاصہ حق تعالیٰ ہے۔ آیت کے ان تین فقروں میں مشرکوں کے تین عقیدوں کا رد تو ظاہر ہی ہے لیکن اس کے علاوہ مسیحیت کا رد بھی اس میں آگیا ہے۔ جس نے مسیح (علیہ السلام) کو خدائے تعالیٰ کا ہم پلہ وہمسر بنا کر پیش کیا ہے۔ ملاحظہ ہو اناجیل رائج الوقت کی چند آیتیں :۔ ” باپ بیٹے سے محبت رکھتا ہے۔ اور اس نے سب چیزیں اس کے ہاتھ میں دیدی ہیں۔ “ (یوحنا 3:36) ’ میں اور باپ ایک ہیں۔ “ (یوحنا۔ 10:30) ” جو کچھ باپ کا ہے وہ سب میرا ہے۔ “ (یوحنا۔ 16: 15) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ یہاں پیغمبر کیلئے اثبات کیا گیا ہے دو صفات کا۔ پہلا اثبات عبدیت کا، جس کے لوازم میں امتشال امر اور اتباع وحی ہے، دوسرا اثبات بشریت کا، جس کے لوازم میں اکل وشرب، خوف ورجاء ہے۔ اسی طرح دو صفات کی نفی ہے۔ پہلی نفی عبد سے خواص الوہیت کی مثلا قدرت کامل وعلم محیط کی ہے۔ دوسری نفی بشر سے تنزہ عن البشریۃ کی ہے۔ 76 ۔ (جو اتنی موٹی سی بات تمہاری سمجھ میں آجائے کہ کہیں نور وحی سے منور، صاحب بصیرت اور کہیں فیضان نور سے محروم، بےبصر دونوں برابر ہوسکتے ہیں) (آیت) ” الاعمی والبصیر “۔ سے مراد کافر و مومن ہیں۔ ای الکافر والمومن عن مجاھد (قرطبی) (آیت) ” ان اتبع الا ما یوحی الی “۔ یہ ہے ایک مختصر سے فقرہ میں ساری حقیقت نبوت و رسالت کی، صاحب وحی کا ہر قدم وحی الہی کی ہی روشنی میں اٹھتا ہے۔ اور نبی تمامتر وحی الہی ہی کا اتباع کرتارہتا ہے۔ نبی کو شریعت میں جو معصوم مانا گیا، وہ تمامتر فرع ہے اسی اصل کی، جب رسول اپنے سارے فرائض رسالت میں احکام الہی کا پیرو ہوگیا تو اس میں خطا وغلطی کا امکان ہی کہاں باقی رہ گیا ؟ آیت سے یہ مراد نہیں کہ پیغمبر اجتہاد سے محروم ہوتا ہے، اجتہاد و قیاس شرعی کے موقع جب امتیوں کے لئے ہیں تو پیغمبر کے لئے تو بدرجہازاید ہیں۔ مراد صرف یہ ہے کہ جو امور قابل اجتہاد نہیں، وہاں تمامتر وحی الہی ہی پیغمبر کی زندگی کی رہنمائی کرتی رہتی ہے
Top