Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 156
اَنْ تَقُوْلُوْۤا اِنَّمَاۤ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰى طَآئِفَتَیْنِ مِنْ قَبْلِنَا١۪ وَ اِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغٰفِلِیْنَۙ
اَنْ : کہ تَقُوْلُوْٓا : تم کہو اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اُنْزِلَ : اتاری گئی تھی الْكِتٰبُ : کتاب عَلٰي : پر طَآئِفَتَيْنِ : دو گروہ مِنْ قَبْلِنَا : ہم سے پہلے وَاِنْ : اور یہ کہ كُنَّا : ہم تھے عَنْ : سے دِرَاسَتِهِمْ : ان کے پڑھنے پڑھانے لَغٰفِلِيْنَ : بیخبر
(اور اس لئے بھی) کہ کہیں تم یہ نہ کہنے لگتے کہ کتاب تو بس ان دو گروہوں پر اتاری گئی جو ہم سے پہلے تھے، اور ہم تو ان کے پڑھنے پڑھانے سے نرے بیخبر ہی رہے،246 ۔
246 ۔ خطاب اب مشرکین عرب سے ہے۔ والخطاب متوجہ الی الکفار قریش باثبات الحجۃ علیھم (بحر) (آیت) ” یعنی قیامت کے دن کہیں بہ طور وعذر و جواب یہ نہ کہنے لگتے۔ (آیت) ” ان، لئلا۔ کے معنی میں ہے۔ قال الکوفیون لئلا تقولوا وقال البصریوں انزلناہ کراھیۃ ان تقولوا (قرطبی) ای ل ان لا (جلالین) (آیت) ” طآئفتین “۔ یعنی گروہ یہود ونصاری۔ تابعین و صحابہ سے یہی تفسیر منقول ہے۔ قال ابن عباس والحسن و مجاھد وقتادہ والسدی وابن جریج ارادبھما الیھود والنصاری (جصاص) والکتاب ھنا جنس والطائفتان ھما اہل التورۃ والانجیل الیھود والنصاری بلاخلاف (بحر) حنفیہ نے لفظ (آیت) ” طآئفتین “ سے یہ استنباط کیا ہے کہ اہل کتاب یہی دو گروہ ہوئے ہیں، ورنہ اگر مجوسی بھی اہل کتاب ہوتے تو بجائے تثنیہ کے جمع کا صیغہ ہوتا۔ وفی ذلک دلیل علی ان اھل الکتاب ھم الیھود والنصاری وان المجوس لیسوا اھل الکتب لانھم لوکانوا اھل کتاب لکانوا ثلاث طوائف (جصاص) ھذا دلیل علی ان المجوس لیسوا باھل الکتاب (مدارک) اور اس پر یہ شبہ ضعیف ہے کہ یہ تو قول مشرکین کا نقل ہوا ہے۔ قرآن مجید میں کسی کا بھی قول بلاتردید نقل ہونا بجائے خود ایک وزن رکھتا ہے۔ (آیت) ” دراستھم “۔ ضمیر بجائے تثنیہ کے جمع کی اس لیے لائی گئی ہے کہ ہر طائفہ خود حکم جمع میں ہے۔ ولم یقل عن درا استھما لان کل طائفۃ جماعۃ (قرطبی) وعاد الضمیر جمعا لان کل طائفۃ منھم جمع (بحر)
Top