Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 153
وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُ١ۚ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖ١ؕ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
وَاَنَّ : اور یہ کہ ھٰذَا : یہ صِرَاطِيْ : یہ راستہ مُسْتَقِيْمًا : سیدھا فَاتَّبِعُوْهُ : پس اس پر چلو وَلَا تَتَّبِعُوا : اور نہ چلو السُّبُلَ : راستے فَتَفَرَّقَ : پس جدا کردیں بِكُمْ : تمہیں عَنْ : سے سَبِيْلِهٖ : اس کا راستہ ذٰلِكُمْ : یہ وَصّٰىكُمْ بِهٖ : حکم دیا اس کا لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگاری اختیار کرو
اور (یہ بھی کہہ دیجیے) کہ یہی میری سیدھی شاہراہ ہے سو اسی پر چلو، اور (دوسری دوسری پگڈنڈیوں) راہوں پر نہ چلو کہ وہ تم کو (اللہ کی) راہ سے جدا کردیں گی اس (سب) کا (اللہ نے) تمہیں حکم دیا ہے تاکہ تم متقی بن جاؤ،243 ۔
243 ۔ غرض وغایت ساری تعلیمات اسلامی کی بس اسی قدر ہے کہ امت بہ حیثیت مجموعی بھی اور اس امت کا ایک ایک فرد بھی ذاتی طور پر ہر قسم کے اخلاقی کمالات سے آراستہ، اللہ کی فوج کا سپاہی، اور کائنات انسانی کے لیے ایک نمونہ بن جائے۔ (آیت) ” وان “۔ عطف بیانات مقدم پر ہے۔ اور، و، کے بعد اتل محذوف ہے۔ عطفھا علی ما تقدم وان فی موضع نصب ای واتل ان ھذا صراطی عن الفراء والکسائی (قرطبی) (آیت) ” ھذا “۔ یعنی مکمل نظام حیات ودستور زندگی۔ جس کی چند اہم مدین اوپر بیان ہوئیں۔ (آیت) ” السبل “۔ ان ٹیڑھی پگڈنڈیوں میں اسلام کے باہر کے کل دوسرے مذاہب آگئے اور اسلام کے اندر کے بھی اہل بدعت وضلالت کے فرقے جو رسول اللہ ﷺ کے طریق مستقیم سے الگ ہیں۔ وھذہ السبل تعم الیھودیہ والنصرانیہ والمجوسیۃ وسائر اھل الملل واھل البدع والضلالات من اھل الاھواء (قالہ ابن عطیہ، قرطبی) قال مجاھد السبل البدع (قرطبی) (آیت) ” ولا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ “۔ اس میں رد آگیا اس مغالبہ پرور خیال کا کہ ہر مذہب اپنی اپنی جگہ سچا ہے اور اسلام بھی انہیں مذہبوں جیسا ہے۔ یہ غلط بےمحل اور غیر فطری رواداری مشرکوں ہی کو مبارک رہے۔ اسلام ایسی خطرناک، مفسدہ انگیز مصالحت پسندی سے بیزار ہے۔
Top