Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 139
وَ قَالُوْا مَا فِیْ بُطُوْنِ هٰذِهِ الْاَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُوْرِنَا وَ مُحَرَّمٌ عَلٰۤى اَزْوَاجِنَا١ۚ وَ اِنْ یَّكُنْ مَّیْتَةً فَهُمْ فِیْهِ شُرَكَآءُ١ؕ سَیَجْزِیْهِمْ وَصْفَهُمْ١ؕ اِنَّهٗ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا مَا : جو فِيْ بُطُوْنِ : پیٹ میں هٰذِهِ : اس الْاَنْعَامِ : مویشی (جمع) خَالِصَةٌ : خالص لِّذُكُوْرِنَا : ہمارے مردوں کے لیے وَمُحَرَّمٌ : اور حرام عَلٰٓي : پر اَزْوَاجِنَا : ہماری عورتیں وَاِنْ : اور اگر يَّكُنْ : ہو مَّيْتَةً : مردہ فَهُمْ : تو وہ سب فِيْهِ : اس میں شُرَكَآءُ : شریک سَيَجْزِيْهِمْ : وہ جلد ان کو سزا دے گا وَصْفَهُمْ : ان کا باتیں بنانا اِنَّهٗ : بیشک وہ حَكِيْمٌ : حکمت والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور کہتے ہیں کہ ان چوپایوں کے شکم میں جو کچھ ہے وہ خالص ہمارے مردوں کے لئے ہے اور ہماری بیویوں کے لئے حرام ہے،208 ۔ اور اگر وہ مردہ ہو تو اس میں وہ سب شریک ابھی (اللہ) ان سے بدلہ لیتا ہے ان کے (اس) بیان پر، بیشک وہ بڑا حکمت والا ہے بڑا علم والا،209 ۔
208 ۔ منجملہ اور وہم پرستیوں کے ایک ضعیف الاعتقادی یہ بھی پھیلی ہوئی تھی کہ فلاں فلاں چوپایوں کے شکم کے اندر کی چیزوں سے نفع اٹھانا صرف مردوں کے لیے جائز ہے اور عورتوں کے لیے ناجائز۔ (آیت) ” ما فی بطون “۔ اس کے تحت میں دودھ بھی آگیا۔ اور بچہ بھی، ائمہ تفسیر سے دونوں معنی منقول ہیں۔ قال ابن عباس ھو اللبن وقیل الاجنۃ (قرطبی) قال مجاھد والسدی یعنی بھا الاجنۃ وقال غیرھم ارادبھا الالبان والاجنۃ جمیعا (جصاص) (آیت) ” خالصۃ “۔ کی ۃ ائمہ نحو سے منقول ہے کہ لفظ کے معنی میں مبالغہ اور قوت پیدا کرنے کے لیے ہے جیسے علام سے علامہ نساب سے نسابہ۔ والھاء فی خالصۃ للمبالغۃ فی الخلوص و مثلہ رجل علامۃ ونسابۃ عن الکسائی والاخفش (قرطبی) قال الکسائی معنی خالص وخالصۃ واحد الا ان الھاء للمبالغۃ (قرطبی) انما انثت خالصۃ علی المبالغۃ فی الصفۃ (جصاص) 209 ۔ سو اپنی صفت حکمت کی بنا پر وہ ہمیشہ ہر ایک کو سزا مناسب حال ہی دے گا اور اپنی صفت علم کی بنا پر کسی مجرم سے بھی بیخبر نہیں رہ سکتا۔ (آیت) ” ان یکن میتۃ “۔ یہ مردہ کونسی چیز ہے ؟ وہی جو ان پوپایوں کے شکم میں تھی، یعنی بچہ۔ ای ان یکن مافی البطون میتۃ (قرطبی) (آیت) ” فیہ “۔ یعنی اس مردہ سے نفع اٹھانے کے باب میں۔ (آیت) ” فھم “۔ یعنی مردو عورت سب۔ ای الرجال والنسآء (قرطبی) ایک جاہلی دستوریہ تھا کہ بچہ اگر زندہ ہے جب تو اس سے انتفاع مردوں کے لیے مخصوص ہے اور اگر مرچکا ہے تو پھر اس میں سب شریک ہوسکتے ہیں۔ یعنی اجنۃ الانعام اذا کانت میتۃ استوی ذکرھم وانثاھم فیھا فاکلوھا جمیعا (جصاص) مشرکین عرب نے ان سب مسائل کو اپنے دین کا جزو بنارکھا تھا۔ اصولیین نے آیت سے یہ مسئلہ بھی نکالا ہے کہ عالم کو چاہیے کہ اپنے مخالف پر اطلاع تو حاصل کرلے اس کے رد کرنے کی غرض سے۔ وفی الایۃ دلیل علی ان العالم ینبغی لہ ان یتعلم قول من خالفہ وان لم یاخذ بہ حتی یصرف فساد قولہ ویعلم کیف یرد علیہ (قرطبی)
Top