Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 137
وَ كَذٰلِكَ زَیَّنَ لِكَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ قَتْلَ اَوْلَادِهِمْ شُرَكَآؤُهُمْ لِیُرْدُوْهُمْ وَ لِیَلْبِسُوْا عَلَیْهِمْ دِیْنَهُمْ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا فَعَلُوْهُ فَذَرْهُمْ وَ مَا یَفْتَرُوْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح زَيَّنَ : آراستہ کردیا ہے لِكَثِيْرٍ : بہت کیلئے مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْن : مشرک (جمع) قَتْلَ : قتل اَوْلَادِهِمْ : ان کی اولاد شُرَكَآؤُهُمْ : ان کے شریک لِيُرْدُوْهُمْ : تاکہ وہ انہیں ہلاک کردیں وَلِيَلْبِسُوْا : اور گڈ مڈ کردیں عَلَيْهِمْ : ان پر دِيْنَهُمْ : ان کا دین وَلَوْ شَآءَ : اور اگر چاہتا اللّٰهُ : اللہ مَا فَعَلُوْهُ : وہ نہ کرتے فَذَرْهُمْ : سو تم انہیں چھوڑ دو وَمَا : اور جو يَفْتَرُوْنَ : وہ جھوٹ باندھتے ہیں
اور اسی طرح ان کے دیوتاؤں نے بہت سے مشرکوں کی نظر میں ان کی اولاد کے قتل کو خوشنمابنا رکھا ہے،204 ۔ جس سے وہ انہیں برباد کرڈالیں اور ان کے دین کو ان پر مخبوط کردیں اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے تو آپ ان کو اور ان کی گڑھنت کو (ان کے حال پر) چھوڑے رہیں،205 ۔
204 ۔ (چنانچہ یہ احمق مشرکین ان دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے دھڑا دھڑ اپنی اولاد کو موت کے گھاٹ اتارتے جاتے ہیں ! ) مفسرین کا خیال آیت کے الفاظ سے عرب جاہلی کی رسم دختر کشی کی طرف گیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے لیکن زیادہ لگتی ہوئی بات یہ ہے کہ اس مقام پر اشارہ دختر کشی کی جانب نہیں، بلکہ عام اولاد کشی کی جانب ہے۔۔۔ غریب مفسرین کو کیا خبر کہ بڑی بڑی ” مہذب وشائستہ “ لیکن جاہلی و مشرک قوموں میں کیسی کیسی ظالمانہ ووحشیانہ رسمیں موجود رہ چکی ہیں ! اولاد کو دیوتاؤں کے استھانوں پر بےتکلف بھینٹ چڑھا دینے کا دستور سامی قوموں میں عام رہا ہے اور خود ہندوستان میں مدتوں یہ رسم رہی ہے کہ بچوں کو گنگا مائی کی موجوں کے آغوش میں ڈال دیا جاتا تھا کہ گھڑیال اور مگرمچھ انہیں نگل لیں۔ اور ان آبی درندوں میں الوہیت کی شان پیدا ہوجائے ! تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو انگریزی تفسیر القرآن۔ (آیت) ” شرکآؤھم “۔ شرکاء سے مراد پہلی نظر میں ان کے دیوتا اور معبود ان باطل معلوم ہوتے ہیں کہ انہی کا خیال ان مشرکوں کو اس طرف لاتا تھا۔ بعض نے اس کے معنی شیاطین کے کیے ہیں۔ قیل ھم الشیاطین وسمی الشیاطین شرکاء لانھم اطاعوھم فی معصیۃ اللہ فاشرکوھم مع اللہ فی وجوب طاعتھم (قرطبی) قال مجاھد شرکاء ھم شیاطینھم وسمیت الشیاطین شرکاء لانھم اطاعوھم فی معصیۃ اللہ تعالیٰ (کبیر) بعض اہل تحقیق نے صاف اس سے مراد مندروں کے پجاریوں، پروہتوں سے لی ہے۔ قال الفر اء والزجاج شرکاء ھم ھنا ھم الذین کانوا یخدمون الاوثان (قرطبی) وقال الکلبی کان لالھتھم سدنۃ و خدام وھم الذین کانوا یزینون للکافر قتل اولادھم وعلی ھذا القول الشرکاء ھم السدنۃ (کبیر) 205 ۔ (اور بہت زیادہ اس کی فکر اپنے سر نہ لیں) (آیت) ” لیردوھم “۔ کے فاعل پر وہ حاشیہ ملاحظہ ہو جو ابھی شرکآؤھم پر گزر چکا ہے۔ (آیت) ” لیردوھم “ میں۔ ل۔ عاقبت کا ہے یعنی یہ ظاہر کرنے کو کہ اس عمل کا نتیجہ یہی ہونا تھا اللام ھھنا محمولۃ علی لام العاقبۃ (کبیر) وللام للعاقبۃ ان کان من السدنۃ اذلیس محط نظرھم ذلک لکنہ عاقبۃ (روح) (آیت) ” دینھم “۔ یہ واضح رہے کہ عرب یعنی بنی اسماعیل کا اصل دین توحید خالص تھا۔ (آیت) ” ولوشآء اللہ “۔ اگر اس کی مشیت تکوینی یہی ہوتی۔ آیت بالا کو پڑھتے وقت ہمارے ملک کے ناظرین اپنے ہاں کی بھی مشرکانہ خرفات کو یاد کرلیں۔ شیخ سدوکا بکا، ہٹھیلے کا مرغا وغیرہ۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ جعلوا للہ مما ذرا سے لے کر آخر رکوع یعنی قد ضلوا وما کانوا مھتدین تک آیات میں ہمارے زمانہ کی بہت سی بدعات کا رد آگیا ہے۔ جو بدعات مذکور کے بہت مشابہ ہیں۔ اور یہ مشابہت ومطابقت ذرا غور کرنے سے نظر آجائے گی۔ اور غضب یہ ہے کہ آج کل کے رسمی شیوخ تک ان میں مبتلا ہیں۔
Top