Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 122
اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَ جَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا١ؕ كَذٰلِكَ زُیِّنَ لِلْكٰفِرِیْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
اَوَ : کیا مَنْ : جو كَانَ مَيْتًا : مردہ تھا فَاَحْيَيْنٰهُ : پھر ہم نے اس کو زندہ کیا وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا لَهٗ : اس کے لیے نُوْرًا : نور يَّمْشِيْ : وہ چلتا ہے بِهٖ : اس سے فِي : میں النَّاسِ : لوگ كَمَنْ مَّثَلُهٗ : اس جیسا۔ جو فِي : میں الظُّلُمٰتِ : اندھیرے لَيْسَ : نہیں بِخَارِجٍ : نکلنے والا مِّنْهَا : اس سے كَذٰلِكَ : اسی طرح زُيِّنَ : زینت دئیے گئے لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے (عمل)
کیا جو شخص مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کردیا اور ہم نے اس کے لئے ایک نور بنا دیا کہ اس کے ساتھ وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے وہ اس کی طرح ہوسکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہے (اور) ان سے نکلنے نہیں پاتا،177 ۔ اسی طرح کافروں کی نظر میں خوشنما کردیا گیا ہے جو کچھ وہ کرتے رہتے ہیں،178 ۔
177 ۔ یعنی وہ مومن جسے کفر سے نجات مل گئی ہے۔ اور کافر جو کفر کے اندھیروں میں پڑا ہے کہیں دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ التفسیر الماثور عن ابن عباس ؓ ان المراد بالمیت الکافر الضال وبالاحیاء الھدایۃ وبالنور القران وبالظلمات الکفر والضلالۃ (روح) (آیت) ” وجعلنا لہ نورا یمشی بہ فی الناس “۔ یعنی وہ نور ایمان ہر وقت اس کے ساتھ ہے اور وہ اسے تمام گمراہیوں سے محفوظ رکھے ہوئے ہے۔ ای امانا یھتدی بہ سبل الخیر والنجاۃ (ابن قتیبہ) (آیت) ” فی الظلمت “۔ مراد وہ شخص ہے جو کفر کی تاریکیوں میں گھرا ہوا ہے۔ ای فی الکفر “۔ (ابن قتیبہ) ای الجھالات والا ھواء والضلالات المتفرقۃ (ابن کثیر) (آیت) ” نورا یمشی بہ “۔ ضمیر اس نور کی طرف ہے اور نور سے مراد نور ایمان اور نور ہدایت ہے۔ النور عبارۃ عن الھدی والایمان (قرطبی) یمشی بہ ای بالنور (قرطبی) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ صوفیہ عارفین کے یہاں معرفت طریق حق کو جو نور سے تعبیر کرتے ہیں اس کی سند اس آیت سے مل جاتی ہے۔ 178 ۔ اس عالم ابتلاء کے قیام وبقاء کا تو سارا راز ہی اس کی ظاہری خوشنمائی میں ہے۔ ہر کفر ہر نافرمانی میں اگر کوئی نہ کوئی لگاؤ ظاہری لذت اور عارضی راحت کا نہ ہو، تو دنیا کا کوئی بھی انسان اس راہ کو اختیار ہی کیوں کرے، (آیت) ” کذلک “۔ یعنی جس طرح مومن نور ایمان سے حیات تازہ پا جاتا ہے۔ کافر اسی طرح اپنی بداعمالیوں میں مگن رہتا ہے۔ الاشارۃ بذلک الی احیاء المومن (بحر)
Top