Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 109
وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ لَئِنْ جَآءَتْهُمْ اٰیَةٌ لَّیُؤْمِنُنَّ بِهَا١ؕ قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ مَا یُشْعِرُكُمْ١ۙ اَنَّهَاۤ اِذَا جَآءَتْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
وَاَقْسَمُوْا : اور وہ قسم کھاتے تھے بِاللّٰهِ : اللہ کی جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ : تاکید سے لَئِنْ : البتہ اگر جَآءَتْهُمْ : ان کے پاس آئے اٰيَةٌ : کوئی نشانی لَّيُؤْمِنُنَّ : تو ضرور ایمان لائیں گے بِهَا : اس پر قُلْ : آپ کہہ دیں اِنَّمَا : کہ الْاٰيٰتُ : نشانیاں عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے پاس وَمَا : اور کیا يُشْعِرُكُمْ : خبر نہیں اَنَّهَآ : کہ وہ اِذَا جَآءَتْ : جب آئیں لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہ لائیں گے
اور انہوں نے اللہ کی قسم بڑے زور سے کھا کر کہا کہ اگر ان کے پاس کوئی نشان آجائے تو وہ ضرور ہی اس پر ایمان لے آئیں، آپ کہہ دیجئے نشانیاں تو (سب) اللہ ہی کے پاس ہیں اور تم خبر نہیں رکھتے کہ جب وہ نشان آجائے گا (جب بھی) یہ ایمان نہیں لائیں گے،159 ۔
159 ۔ یہ پیش خبری عالم الغیب والشہادہ کی طرف سے ہے۔ اور اسی کو یہ کہنے کا حق بھی پہنچتا ہے کہ انکے فرمایشی معجزات بھی جتنے کے جتنے پورے ہوجائیں جب بھی غایت عناد سے یہ لوگ ایمان لانے کے نہیں۔ (آیت) ” جھدایمانہم “۔ محاورہ میں مراد بڑی سخت اور غلیظ قسموں سے ہے اور مشرکین عرب ایسی قسم اپنے خدائے اعظم اللہ ہی کے نام کی کھاتے تھے۔ ھذہ باغلظ الایمان عندھم (قرطبی) جھد الایمان اشدھا وھو باللہ (قرطبی) (آیت) ” لئن جآء تھم ایۃ لیؤمنن بھا “۔ یعنی ہمارے فرمائشی معجزات میں سے کوئی معجزہ دکھادیا جائے تو ہم اس پر ایمان لے آئیں اور صاحب معجزہ کی نبوت کے قائل ہوجائیں، کوئی معجزہ سے مراد فلاں متعین معجزہ تھا۔ ای من مقترحاتھم (بیضاوی، مدارک) روایت میں آتا ہے کہ خاص فرمائشی اس معجزہ کی تھی کہ مکہ کا کوہ صفا سونے کا بن جائے (آیت) ” انما الایت عند اللہ “۔ یعنی معجزات وخوارق کا وقوع پیغمبر یا کسی بندہ کے ہاتھ میں نہیں، تمام تر اللہ کے ہاتھ میں ہے اس لئے کہ معجزہ کی حقیقت سے نظام کائنات کے کسی مستمر اور بندھے ہوئے معمول میں کچھ ترمیم کرنا، اور ان کا تمام تر فاطر کائنات ہی کے اختیار میں ہونا بالکل ظاہر ہے وہی قدرت بھی اس پر رکھتا ہے اور وہی علم بھی اس کا رکھتا ہے کہ کس معجزہ کا وقوع موافق حکمت ہوگا اور کس کا مخالف حکمت، پس کسی مخصوص و متعین معجزہ کی فرمایش ہی سرے سے بےجا ہے، البتہ نفس کوئی معجزہ یا غیر معمولی نشان پیغمبر کے دعوی کی تصدیق وتقویت کے لیے عین موافق حکمت ہے، اور ایسے نشانات ایک نہیں بیشمار تصدیق رسالت محمدی ﷺ میں ظاہر ہوچکے تھے (آیت) ” وما یشعرکم۔۔۔ لا یؤمنون “۔ بعض مسلمانوں کو قدرۃ یہ خیال گزر رہا تھا کہ کاش ان منکروں کی فرمائشیں پوری کردی جائیں، تو شاید کہ یہ لوگ اس طرح مسلمان ہوجائیں، یہاں جواب اس کامل رہا ہے اور ضمیر کم کے مخاطب مومنین معاصرین ہیں۔ یا معشر المسلمین (ابن عباس ؓ وقال القراء وغیرہ الخطاب لل مومنین لان ال مومنین قالوا للنبی ﷺ یا رسول اللہ لونزلت الایۃ لعلھم یؤمنون (قرطبی) وکان المومنون یطمعون فی ایمانھم (مدارک) (آیت) ” انھا “۔ یعنی وہی فرمایشی معجزات، ای الایۃ المقترحۃ (مدارک)
Top