Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 104
قَدْ جَآءَكُمْ بَصَآئِرُ مِنْ رَّبِّكُمْ١ۚ فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ عَمِیَ فَعَلَیْهَا١ؕ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ
قَدْ جَآءَكُمْ : آچکیں تمہارے پاس بَصَآئِرُ : نشانیاں مِنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب فَمَنْ : سو جو۔ جس اَبْصَرَ : دیکھ لیا فَلِنَفْسِهٖ : سو اپنے واسطے وَ : اور مَنْ : جو عَمِيَ : اندھا رہا فَعَلَيْهَا : تو اس کی جان پر وَمَآ : اور نہیں اَنَا : میں عَلَيْكُمْ : تم پر بِحَفِيْظٍ : نگہبان
اب تمہارے پاس روشن دلائل تمہارے پروردگار کے پاس سے پہنچ چکے ہیں سو جو کوئی بصارت سے کام لے گا، وہ اپنے ہی لئے، اور جو کوئی اندھا رہے گا اس پر (وبال) رہے گا، اور میں کوئی تمہارے اوپر نگران تو ہوں نہیں،152 ۔
152 ۔ (کہ میرے اوپر تمہارے عقائد و اعمال کی ذمہ داری آتی ہو) یہ خطاب پیغمبر کو ہے کہ آپ یوں کہہ دیجئے (آیت) ” بصآئر من ربکم “ قرآن کے دلائل، رسول کے معجزات، سب بصائر کے تحت میں داخل ہیں۔ ای ایات وبراھین یبصربھا ویستدل (قرطبی) یعنی بالبصیرۃ الحجۃ البینۃ الظاھرۃ (قرطبی) البصائرھی البینات الحجج التی اشتمل علیھا القران وما جاہ بہ الرسول (ابن کثیر) (آیت) ” فمن ابصر “۔ یعنی دلائل سے توحید تک پہنچ جائے گا۔ (آیت) ” وما انا علیکم بحفیظ “۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اس سے اہل طریق کے اس معمول کی طرف اشارہ نکلتا ہے کہ حق ارشاد ادا کرکے پھر کسی کے درپے نہیں ہوتے۔
Top