Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 38
وَ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ وَ مَنْ یَّكُنِ الشَّیْطٰنُ لَهٗ قَرِیْنًا فَسَآءَ قَرِیْنًا
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں اَمْوَالَھُمْ : اپنے مال رِئَآءَ : دکھاوے کو النَّاسِ : لوگ وَ : اور لَا يُؤْمِنُوْنَ : نہیں ایمان لاتے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَلَا : اور نہ بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : آخرت کے دن پر وَمَنْ : اور جو۔ جس يَّكُنِ : ہو الشَّيْطٰنُ : شیطان لَهٗ : اس کا قَرِيْنًا : ساتھی فَسَآءَ : تو برا قَرِيْنًا : ساتھی
اور جو لوگو اپنا مال لوگوں کے دکھانے کے لئے خرچ کرتے رہتے ہیں اور نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ روز آخرت پر (تو یہ سب کافروں ہی کے حکم میں داخل ہیں) ،131 ۔ اور جس کا مصاحب شیطان ہوا سو برا مصاحب ہوا،132 ۔
131 ۔ (آیت) ” رء آء الناس “۔ یعنی یہ لوگ اہل حقوق پر خرچ نہیں کرتے بلکہ موقع نمود پر خرچ کرتے ہیں، جن لوگوں کا ایمان خدا اور روز جزا پر نہیں ہوتا وہ جس موقع پر اور جس مقصد سے بھی خرچ کریں گے، بہرحال کوئی نہ کوئی صورت رضاء خلق ہی کی ہوگی، حالانکہ اسلام نے جان کی طرح (گو اس سے کم درجہ میں) مال کی بھی خرچ کی اجازت رضاء خالق ہی کے تحت دی ہے ، 132 ۔ (جو ہمیشہ برائی ہی کی ترغیب دیتا رہے گا) ( ّآیت) ” من یکن الشیطن لہ قرینا “۔ جس کا مصاحب شیطان ہوا۔ جیسا کہ ان لوگوں کا ہے۔
Top