Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 172
لَنْ یَّسْتَنْكِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّكُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰهِ وَ لَا الْمَلٰٓئِكَةُ الْمُقَرَّبُوْنَ١ؕ وَ مَنْ یَّسْتَنْكِفْ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ یَسْتَكْبِرْ فَسَیَحْشُرُهُمْ اِلَیْهِ جَمِیْعًا
لَنْ يَّسْتَنْكِفَ : ہرگز عار نہیں الْمَسِيْحُ : مسیح اَنْ : کہ يَّكُوْنَ : ہو عَبْدًا : بندہ لِّلّٰهِ : اللہ کا وَلَا : اور نہ الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے الْمُقَرَّبُوْنَ : مقرب (جمع) وَمَنْ : اور جو يَّسْتَنْكِفْ : عار کرے عَنْ : سے عِبَادَتِهٖ : اس کی عبادت وَيَسْتَكْبِرْ : اور تکبر کرے فَسَيَحْشُرُهُمْ : تو عنقریب انہیں جمع کرے گا اِلَيْهِ : اپنے پاس جَمِيْعًا : سب
مسیح (علیہ السلام) ہرگز اس سے عار نہ کریں گے کہ وہ اللہ کے بندہ ہیں اور نہ مقرب فرشتے بھی،442 ۔ اور جو کوئی اللہ کی بندگی سے عار کرے گا اور تکبر کرے گا تو اللہ ضرور اپنے پاس سب کو جمع کرے گا،443 ۔
442 ۔ (نہ عالم ناسوت میں، نہ بزرخ میں، نہ آخرت میں) (آیت) ” المسیح۔ الملکۃ المقربون “۔ ایک طرف حضرت مسیح (علیہ السلام) اور دوسری طرف ملائکہ مقربین، یہی دونوں دنیا میں کثرت سے پجے ہیں، مشرکوں نے فرشتوں کو دیوی دیوتا کے نام دے کر شریک الوہیت ٹھہرایا، اور مسیحیوں نے مسیح (علیہ السلام) کو خدائی کے مرتبہ پر پہنچایا، اسی لیے خصوصیت کے ساتھ تصریح سے ان دونوں کی نفی الوہیت کی گئی اور بتایا گیا کہ اللہ کی عبدیت کوئی چیز توہین والی نہیں۔ مسیح (علیہ السلام) اور ملائکہ مقربین تو اس پر فخر کرتے ہیں نہ یہ کہ اس میں کسی قسم کا عار محسوس کرتے ہین، مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ مراتب شرف میں عبدیت مرتبہ اعلی ہے۔ 443 ۔ یہاں بیان اس عام قانون کا ہورہا ہے کہ کوئی اللہ کی بندگی میں عار اور تکبر کر ہی کیونکر سکتا ہے اللہ تو ایسا حاکم مطلق ہے کہ وقت موعود پر سب ہی کو اس کی خدمت میں حاضری دینا ہے۔
Top