Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 133
اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ اَیُّهَا النَّاسُ وَ یَاْتِ بِاٰخَرِیْنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى ذٰلِكَ قَدِیْرًا
اِنْ يَّشَاْ : اگر وہ چاہے يُذْهِبْكُمْ : تمہیں لے جائے اَيُّھَا النَّاسُ : اے لوگو وَيَاْتِ : اور لے آئے بِاٰخَرِيْنَ : دوسروں کو وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي ذٰلِكَ : اس پر قَدِيْرًا : قادر
وہ اگر چاہے تو اے لوگو تم (سب) کو لے جائے اور دوسروں کو لے آئے،351 ۔ اور اللہ اس پر قادر ہی ہے،352 ۔
351 ۔ (اور جو کام اسے لینے ہیں، وہ اسی نئی مخلوق سے لے) یہ بیان اس کے کمال قدرت کا ہے (آیت) ” اخرین “۔ یعنی نوع انسان کے علاوہ کوئی اور ہی نئی مخلوق۔ ای خلقا اخرین مکان الانس (بیضاوی) جوز الزمخشری وابن عطیۃ ومقلد وھما ان یکون المرادجنسا غیر جنس الناس (روح) 352 ۔ (سو اس قدرت کے باوجود وہ اگر ایسا نہیں کرتا اور تمہارے بجائے کسی جدید مخلوق کو وجود میں نہیں لارہا ہے تو اس کا تمہارے ہی اوپر کمال احسان ہے کہ وہ اس طرح حصول اجر کا موقع دیے جارہا ہے) کان لانے سے مفہوم ماضی مقصود نہیں۔ بلکہ صفت قدرت کی ازلیت اور غیر متناہیت کا اثبات مقصود ہے۔ القدرۃ صفۃ ازلیۃ لاتتناھی معلوماتہ والماضی والمستقبل فی صفاتہ بمعنی واحد (قرطبی) صیغہ ماضی لانے میں نکتہ یہ ہے کہ صفت کے قدیم ہونے کی طرف اشارہ ہوجائے، ذات وصفات کو کوئی حادث نہ سمجھ لے۔ انما خص الماضی بالذکر لئلا یتوھم انہ یحدث فی ذاتہ وصفاتہ (قرطبی)
Top