Tafseer-e-Majidi - Az-Zumar : 53
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ
قُلْ : فرمادیں يٰعِبَادِيَ : اے میرے بندو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے اَسْرَفُوْا : زیادتی کی عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں لَا تَقْنَطُوْا : مایوس نہ ہو تم مِنْ : سے رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کی رحمت اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَغْفِرُ : بخش دیتا ہے الذُّنُوْبَ : گناہ (جمع) جَمِيْعًا ۭ : سب اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہی الْغَفُوْرُ : بخشنے والا الرَّحِيْمُ : مہربان
آپ (میری طرف سے) کہہ دیجئے کہ اے میرے بندوجو اپنے اوپر زیادتیاں کرچکے ہو، اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو،69۔ بیشک اللہ سارے گناہ معاف کردے گا،70۔ بیشک وہ بڑا غفور ہے بڑا رحیم ہے،71۔
69۔ (یہ خیال کرکے کہ اللہ تعالیٰ کفر وشرک کے معاف کرنے پر قادر نہیں) یہ رد ہے ان مذاہب پر جو خدا کے وجود کے تو قائل ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہے جاتے ہیں کہ وہ عفوذنوب پر قادر نہیں۔ (آیت) ” الذین اسرفوا علی انفسھم “۔ اسراف علی النفس سے مراد کفر وشرک سے ہے 70۔ (اسلام کی برکت سے) یعنی اب جب تم کفر وشرک ترک کر کے ایمان لارہے تو اب کیا ڈر ہے۔ اب تو تمہارے سارے گناہ دھل جائیں گے، دوسرے مذاہب کی تنگی کا تو ذکر ہی نہیں۔ خود مسیحیت جیسے لینت و شفقت وترحم پر ناز ہے اس کا حال انجیل کی زبانی سنیے :” میں تم سے کہتا ہوں کہ آدمیوں کا ہر گناہ اور کفر تو معاف کیا جائے گا مگر جو کفر روح کے حق میں ہو وہ معاف نہ کیا جائے گا اور جو کوئی ابن آدم کے خلاف کوئی بات کہے گا وہ تو اسے معاف کی جائے گی مگر جو کوئی روح القدس کے برخلاف کوئی بات کہے گا وہ اسے معاف نہ کی جائے گی نہ اس عالم میں نہ آنے والے میں۔ “ (متی۔ 12: 32) (آیت) ” یعبادی “۔ امام رازی (رح) نے یہ خطاب اور اس کے بعد کا وعدہ رحمت ومغفرت مومنین کے ساتھ مخصوص سمجھا ہے اور (آیت) ” الذین اسرفوا علی انفسھم “۔ سے انہیں مومنین کے معاصی مراد لئے ہیں اور بعض دوسرے مفسرین نے بھی اسی نقطہ نظر کی تائید کی ہے۔ واضافۃ العباد وتخصصہ بالمومنین علی ما ھو عرف القران (بیضاوی) انا بینا فی ھذا الکتب ان عرف القران جار بتخصیص اسم العباد بالمومنین (کبیر) وحمل غیر واحد الاضافۃ فی عبادی علی العھد اوعلی التشریف وذھبوا الی ان المراد بالعباد المومنون فکانہ قیل ایھا المومنون المذنبون (روح) بہرصورت آیت میں وعدۂ رحمت ومغفرت ہے بڑی تاکید وشدت کے ساتھ (آیت) ” لاتقنطوا من رحمۃ اللہ “۔ خود ہی ادائے مقصد کے لئے کافی تھا۔ اس پر دوسرے فقرہ کا اضافہ پر قوت الفاظ کے ساتھ کیا۔ (آیت) ” ان اللہ یغفرالذنوب جمیعا “۔ اعاد اسم اللہ وقرن بہ لفظۃ ان العقیدۃ لاعظم وجوہ التاکید وکل ذلک یدل علی المبالغۃ فی الوعد بالرحمۃ (کبیر) حسن بصری (رح) تابعی نے کہا ہے کہ اس وسعت کرم و شفقت کی کوئی انتہاء ہے کہ جنہوں نے اللہ کے دوستوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کئے انہیں کو دعوت توبہ ومغفرت دی جارہی ہے۔ قال الحسن البصری انظروا الی ھذا الکرم واجود قتلوا اولیاء ہ وھو یدعوھم الی التوبۃ والمغفرۃ والایات فی ھذا کثیرۃ جدا (ابن کثیر) 71۔ وہ کسی اور برتر قانون کا پابند و محکوم ہرگز نہیں، وہ رحمت ومغفرت میں کسی رنگ سے معذور نہیں وہ بغیر کسی ” کفارہ “ کے جس کسی کو چاہے بخش دے، اس کی صفت رحم پر کوئی قید عائد نہیں ....... بجز اسی کی مشیت و ارادہ کے، صحابیان کرام سے مروی ہے کہ یہ آیت قرآن مجید میں وسیع ترین اور امید افزاء ترین ہے، وقال علی بن ابی طالب مافی القران اوسع من ھذہ الایۃ (قرطبی) وقال عبد اللہ بن عمر ؓ وھذہ ارجی ایۃ فی القران (قرطبی) حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے نزدیک ایک اور آیت اس سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ (آیت) ” وان ربک لذو مغفرۃ للناس علی ظلمھم ہے (قرطبی)
Top