Tafseer-e-Majidi - Al-Furqaan : 22
یَوْمَ یَرَوْنَ الْمَلٰٓئِكَةَ لَا بُشْرٰى یَوْمَئِذٍ لِّلْمُجْرِمِیْنَ وَ یَقُوْلُوْنَ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا
يَوْمَ : جس دن يَرَوْنَ : وہ دیکھیں گے الْمَلٰٓئِكَةَ : فرشتے لَا بُشْرٰى : نہیں خوشخبری يَوْمَئِذٍ : اس دن لِّلْمُجْرِمِيْنَ : مجرموں کے لیے وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہیں گے حِجْرًا : کوئی آڑ ہو مَّحْجُوْرًا : روکی ہوئی
جس روز یہ لوگ فرشتوں کو دیکھیں گے اس روز مجرموں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہ ہوگی اور یہ کہیں گے کہ پناہ پناہ ! ،26۔
26۔ کافروں کا سامنا فرشتوں سے جب بھی ہوگا عذاب ہی کے فرشتوں سے ہوگا، اور وہ وقت کافروں کی مسرت کا نہیں، انتہائی مصیبت کا ہوگا۔ (آیت) ” حجرا محجورا “۔ ایک محاورہ ہے عہد جاہلیت میں جب کسی کو کوئی بلا پیش آتی یا کوئی اپنے دشمن کو دیکھ پاتا اور خیال یہ ہوتا کہ وہ اس پر حملہ کرے گا تو یہی لفظ پکار کر کہتا، جیسے اردو محاورہ میں کہتے ہیں دور، دور ! ھذہ کلمۃ کانوا یتکلمون بھا عند لقاء عدو موفوراو ھجوم نازلۃ اونحو ذلک یصنعونھا موقع الاستعاذۃ (کشاف) کان الرجل اذا لقی من یخاف یقول ذلک (راغب) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ سلوک میں حالات محمود غیراختیاری کا پیش آجانا بعض طالبین کے حق میں مضر ہوتا ہے اور اس کی فہم مشائخ اہل تربیت رکھتے ہیں۔
Top