Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 53
وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ
وَاِذْ : اور جب آتَيْنَا : ہم نے دی مُوْسَى : موسیٰ الْكِتَابَ : کتاب وَ : اور الْفُرْقَانَ : جدا جدا کرنے والے احکام لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَهْتَدُوْنَ : ہدایت پالو
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور فرقان دیئے تاکہ تم راہ یاب ہوجاؤ،175 ۔
175 (اور جزئیات تک کے لیے زندگی کا ایک دستورالعمل ہاتھ آجائے) اجمالا راہ ہدایت یعنی توحید کی تعلیم تو اسرائیلیوں کو پہلے سے ملی ہوئی تھی، اور پیمبر ان کے درمیان موجود ہی تھے۔ اب کتاب اس لیے نازل فرمادی گئی کہ ایک مستقل ومرتب دستورالعمل جزئیات زندگی کا ان کے ہاتھ میں آجائے، اور آئندہ یہ راہ سے بھٹکنے نہ پائیں۔ (آیت) ” الکتب “ یعنی توریت۔ قرآن مجید میں مطلق (آیت) ” الکتب “ کا لفظ، علاوہ قرآن کے توریت کے لیے بھی آیا ہے۔ (آیت) ” الفرقان “ فرقان اپنے لفظی معنی میں ہر وہ چیز ہے جس سے حق و باطل کے درمیان فرق کیا جاسکے۔ کل ما فرق بہ بین الحق والباطل فھو فرقان (لسان) (آیت) ” الفرقان “ قرآن کا بھی ایک نام ہے ، ، اس مناسبت سے کہ قرآن حق و باطل، حرام و حلال کے درمیان فارق ہے۔ اور اسی مناسبت سے اس کا اطلاق علاوہ قرآن کے توریت وانجیل پر بھی ہوسکتا ہے کہ یہ کتابیں بھی فارق ہیں بہ لحاظ عقائد حق و باطل کے درمیان۔ بہ لحاظ اقوال صدق وکذب کے درمیان۔ اور بہ لحاظ اعمال نیک وبد کے درمیان (راغب) اس مقام پر (آیت) ” فالفرقان “ کی متعدد تفسیریں نقل ہوئی ہیں۔ 1 ۔ الکتب والفرقان۔ کے درمیان عطف تفسیری ہے۔ اور مراد دونوں سے ایک ہی ہے یعنی توریت۔ توریت ہی کی دو صفتیں ہیں۔ ایک صفت کتابت، دوسری صفت فرقانیت۔ اول کے لحاظ سے وہ (آیت) ” الکتب “ ہے، اور دوسری کے لحاظ سے (آیت) ” الفرقان “ یعنی الجامع بین کونہ کتابا منزلا وفرقانا یفرق بین الحق والباطل یعنی التوراۃ (کشاف) الفرقان نعت والواو زائدۃ یعنی الکتب الفرقان (معالم۔ عن الکسائی) 2 ۔ دوسرے یہ کہ اس سے مراد یہاں توریت اپنے احکام وشرائع کے لحاظ سے ہے۔ ابن عباس ؓ اور بہت سے تابعین کا یہی مذہب ہے۔ یہ قول قول اول سے معنی بالکل ملتا ہوا ہے۔ 3 ۔ مراد وہ معجزات ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا ہوئے تھے۔ مثلا معجزہ عصا، معجزۂ یدبیضا، وغیرہما۔ یہ مذہب مجاہد تابعی کا ہے۔ انہ معجزات الفارقۃ بین الحق والباطل (روح) ۔ 4 ۔ مراد وہ فتح و غلبہ ہے جو بنی اسرائیل کو حکومت فرعونی کے مقابلہ میں عطا ہوا تھا۔ النصر والفرج الذی اتاہ اللہ بنی اسرائیل علی قوم فرعون (کبیر) الفرقان الفرج من الکرب لانہم کانوا مستعبدین مع القبط (قرطبی) ۔ یہود کا عقیدہ ہے کہ لکھی ہوئی کتاب توریت کے علاوہ زبانی بھی بہت سے اسرار ومسائل کی تعلیم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ہوئی تھی، اور وہ ان کے بعد سے سینہ بہ سینہ نسلا بعد نسل ان کی قوم میں منتقل ہوتے چلے آئے ہیں۔ سو یہود کے نقطہ خیال سے فرقان سے مراد اس علم سفینہ کے علاوہ یہ علم سینہ ہے۔
Top