Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 49
وَ اِذْ نَجَّیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَكُمْ١ؕ وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ
وَاِذْ : اور جب نَجَّيْنَاكُمْ : ہم نے تمہیں رہائی دی مِنْ : سے آلِ فِرْعَوْنَ : آل فرعون يَسُوْمُوْنَكُمْ : وہ تمہیں دکھ دیتے تھے سُوْءَ : برا الْعَذَابِ : عذاب يُذَبِّحُوْنَ : وہ ذبح کرتے تھے اَبْنَآءَكُمْ : تمہارے بیٹے وَيَسْتَحْيُوْنَ : اور زندہ چھوڑ دیتے تھے نِسَآءَكُمْ : تمہاری عورتیں وَفِیْ ذَٰلِكُمْ : اور اس میں بَلَاءٌ : آزمائش مِنْ : سے رَبِّكُمْ : تمہارا رب عَظِیْمٌ : بڑی
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تمہیں فرعون والوں سے نجات دی تھی جو تمہارے اوپر بڑا عذاب توڑ رہے تھے164 ۔ تمہارے لڑکوں کو قتل کر ڈالتے تھے،165 ۔ اور تمہاری عورتوں کو زندہ رہنے دیتے تھے،166 ۔ اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی،167 ۔
164 ۔ ال لغت میں اھل کا مرادف ہے۔ اور مراد اس سے اہل و عیال، اتباع، ہم مذہب اور ہم نسب ہوتے ہیں اھل الرجل عیالہ واتباعہ واولیاءہ (تاج) فرق یہ ہے کہ اھل کا استعمال عام ہے، اور ال صرف خصوصیت اور اہمیت رکھنے والوں کے لیے آتا ہے۔ لا یستعمل الال الامافیہ شرف غالبا (تاج) ۔ (آیت) ” فرعون “ یہ کسی متعین بادشاہ کا ذاتی نام یا علم نہیں۔ قدیم شاہان مصر کا عام لقب تھا۔ جیسے ہمارے زمانہ میں بھی تک جرمنی کے بادشاہ کو قیصر، روس کے تاجدار کو زار، اور ٹرکی کے فرمانرواکو سلطان کہتے تھے یا آج بھی والئی مصر کو خدیو اور والئی دکن کو نظام کہتے ہیں۔ فرنگی مؤرخین کا خیال ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہم عصر کوئی ایک بادشاہ نہیں ہوا ہے، یکے بعد دیگرے دوبادشاہ ہوئے ہیں، یہ اگر صحیح ہے تو اسے بھی قرآن کا اعجاز ہی کہنا چاہئے، کہ وہ بجائے شخصی نام کے عمومی لفظ لایا جس کے بعد شخصیتوں کے ایک یا دو یا چند ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ (آیت) ” یسومونکم سوٓء العذاب “ یعنی ظالم و جابر حکمرانوں کی طرح تمہیں رعایا بنائے ہوئے تمہارے اوپر طرح طرح کی سختیاں کررہے تھے، توریت میں ہے : مصریوں نے خدمت کروانے میں بنی اسرائیل پر سختی کی اور انہوں نے سخت محنت سے گارا اور اینٹ کا کام اور سب خدمت کھیت کی کروا کے ان کی زندگی تلخ کی، ان کی ساری خدمتیں جو وہ ان سے کراتے تھے مشقت کی تھیں۔ (خروج۔ 1: 13، 14) قدیم ترین اسرائیلی مؤرخ جو زیفس کی تاریخ آثار یہود (History of Je ish Antiqities) میں تفصیلات اور زیادہ موجود ہیں۔ قرآن مجید اور توریت کے بیان کا یہ فرق بھی قابل لحاظ ہے کہ توریت نے حاکمانہ سخت گیریوں کو سارے ” مصریوں “ کی جانب منسوب کردیا۔ اور قرآن نے اپنے حسب معمول محتاط اور انتہائی صادقانہ لہجہ میں نام صرف ” فرعونیوں “ کا لیا۔ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے ایسی ہی الگ ہیں جیسے انگریزی قوم اور انگریزی حکومت۔ نجینا۔ باب تفعیل سے ہے اور اس باب کی ایک خاصیت فعل کی تدریج ظاہر کرنا بھی ہے۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ سارے اسرائیلی مصر سے دفعۃ نہیں نکلے تھے۔ بلکہ رفتہ رفتہ اور مختلف ٹولیوں میں نکلتے رہے۔ اور ان کا سب سے بڑا اور آخری دستہ وہ تھا جو حضرت موسیٰ کی قیادت میں روانہ ہوا، اور راہ بھٹک کر پھر سمندر پار ہوا۔ ہیسٹنگز کی ” ڈکشنری آف دی بائبل “ میں ہے :۔ ممکن ہے کہ مصری اسرائیلیوں کے گروہ وقتا فوقتا مصر سے نکل کر اپنے اجداد کے مقبروں کے مقبروں کے گرد آباد ہوتے رہے ہوں “ (جلد 3 صفحہ 860) اگر تاریخ نے کبھی مؤرخین کے اس خیال کی تصدیق کردی، تو قرآن مجید کے لفظ نجینا کے باب تفعیل سے آنے کی اعجازی قدر اس وقت ہوگئی۔ 165 ۔ توریت میں ہے :۔ اگر بیٹا ہو تو اسے ہلاک کردو۔۔ اور فرعون نے اپنے سب لوگوں کو تاکید کرکے کہا، کہ ان میں سے جو بیٹا پیدا ہو تم اسے دریا میں ڈال دو “۔ (خروج۔ 1:5، 22) 166 ۔ یہ لڑکیوں کا قتل نہ کرنا اور انہیں عورت بننے کے لیے زندہ رکھنا غالبا اس لیے تھا کہ انہیں آئندہ فرعونی امراء اپنے حرم میں داخل کریں ، (ملمین کی ” ہسڑی آف دی جیوز “ جلد اول صحفہ 77) ۔ توریت میں ذکر قرآن کی طرح صرف ان کے زندہ رکھنے کا ہے۔ وجہ ومصلحت درج نہیں :۔ ” اگر بیٹا ہو تو اسے ہلاک کردو۔ اور اگر بیٹی ہو تو اسے جینے دو ۔ ان میں جو بیٹا پیدا ہو تم اسے دریا میں ڈال دو ، اور جو بیٹی ہو، جیتی رہنے دو ۔ “ (خروج۔ 1:5، 22) 167 ۔ مشہور وقدیم یہودی مورخ جو زیفس کے الفاظ بھی تقریبا بالکل یہی ہیں :۔ یہ ایک بہت سخت ابتلا تھا “ (تاریخ آثار یہود۔ باب 2 ۔ فصل 9)
Top