Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 35
وَ قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا١۪ وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَقُلْنَا : اور ہم نے کہا يَا آدَمُ : اے آدم اسْكُنْ : تم رہو اَنْتَ : تم وَزَوْجُکَ : اور تمہاری بیوی الْجَنَّةَ : جنت وَكُلَا : اور تم دونوں کھاؤ مِنْهَا : اس میں سے رَغَدًا : اطمینان سے حَيْثُ : جہاں شِئْتُمَا : تم چاہو وَلَا تَقْرَبَا : اور نہ قریب جانا هٰذِهِ : اس الشَّجَرَةَ : درخت فَتَكُوْنَا : پھر تم ہوجاؤگے مِنَ الظَّالِمِیْنَ : ظالموں سے
اور ہم نے کہا اے آدم، تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہوسہو، اور اس میں جہاں سے چاہو خوب کھاؤ129 ۔ اور اس درخت کے پاس نہ جانا130 ۔ ورنہ تم گنہ گاروں میں سے ہوجاؤ گے131 ۔
129 ۔ (آیت) ” جنۃ “ لفظی معنی ہر اس باغ کے ہیں جس کے درخت زمین کو چھپا لیں۔ کل بستان ذی شجر یستر باشجارہ الارض (راغب) (آیت) ” الجنۃ “ سے اصطلاح شرعی میں مراد وہ عظیم الشان باغ ہے جو بیشمار نعمتیں لیے ہوئے عالم آخرت میں نیک کاروں کے لیے مخصوص ہے اور آج نظروں سے مستور ہے، اس کا نام جنت یا تو اس لیے پڑا کہ وہ دنیا کے باغوں سے مشابہ ہے۔ گومشابہت بہت دور کی سہی۔ اور یا اس لیے کہ اس کی نعمتیں ابھی مستور ہیں۔ سمیت الجنۃ اما تشبیھا بالجنۃ فی الارض وان کان بینھما بون واما السترہ نعمھا عنا (راغب) (آیت) ” انت “ اس صراحت سے معلوم ہوتا ہے کہ مخاطب اصلی حضرت آدم (علیہ السلام) تھے۔ حضرت حوا کی حیثیت تابع کی سی تھی۔ (آیت) ” زوجک “ مراد حضرت حوا ہیں، اس وقت تک پیدا ہوچکی تھیں۔ (آیت) ” حیث شئتما “۔ اس سے اشارۃ جنت کی وسعت عظیم بھی معلوم ہوگئی۔ 130 ۔ (آیت) ” ھذہ الشجرۃ “ ظاہر ہے کہ یہ درخت جنت کے درختوں میں سے کوئی متعین اور حضرت آدم کے لیے معلوم ومعروف درخت تھا۔ لیکن اب اس کی تعین سے کوئی نتیجہ نہ تھا۔ اس لیے قرآن حکیم جو کبھی بےنتیجہ بات نہیں کہتا، اس سے خاموش ہے۔ اور حدیث صحیح میں بھی اس باب میں کچھ وارد نہیں ہوا ہے لم یضع لعبادہ دلیلا علی ذلک فی القران ولا فی السنۃ الصحیحۃ (ابن جریر) اس لیے محققین کا مسلک بھی اس باب میں خاموشی کا ہے۔ اقوال وآراء بکثرت مروی ہیں۔ توریت میں ایک بڑی طویل عبارت میں اس کا بیان آیا ہے۔ اس کے آخر میں ہے :۔ ” اور خداوند خدا نے آدم کو حکم دے کر کہا کہ تو باغ کے ہر درخت کا پھل کھایا کر لیکن نیک وبد کی پہچان کے درخت سے نہ کھانا، کیونکہ جس دن تو اس سے کھائے گا ضرور مرے گا “۔ (پیدائش۔ 20: 12، 17) بات یہاں بھی اسی قدر مجمل رہی۔ مادی درختوں میں سے گیہوں، خرما، کافور، انجیر، حنظل وغیرہ سے لے کر شجر محبت، شجر علم وغیرہ معنوی درختوں تک کے نام لیے گئے ہیں۔ قیل الحنطۃ وقیل النخلۃ وقیل التین، قیل الحنظل، وقیل شجرۃ المحبۃ وقیل شجرۃ الطبیعۃ والھوی وقیل وقیل (روح) لیکن اہل تحقیق کا فیصلہ وہی خاموشی کا ہے۔ ولا علم عندنا بایۃ شجرۃ کانت علی التعیین فلا حاجۃ ایضا الی بیانہ (کبیر) والاولی عدم القطع والتعیین (روح) 131 ۔ (آیت) ” من الظلمین “ یعنی ان لوگوں میں سے جو اپنے آپ پر ظلم کرتے رہتے ہیں۔ اور اللہ کی نافرمانی سے بڑھ کر کون سا ظلم اپنے آپ پر ہوگا۔ اس تصریح سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جنت اس وقت تک دارالجزاء یا دارالخلد نہ تھی، جیسا کہ اب ہے۔ بلکہ اس وقت وہاں تکلیفات شرعی تھیں، احکام تھے، نواہی تھے، اور جب جنت کی ماہیت اس وقت یہ تھی، تو کوئی اشکال نہیں رہتا وہاں وسوسۂ شیطانی کے پہنچ جانے پر یا کسی متنفس کے وہاں سے نکالے جانے پر۔ مرشد تھانوی مدظلہ نے (آیت) ” لاتقربا “ سے یہ نکتہ خوب پیدا کیا کہ اصلا صرف اکل ممنوع تھا لیکن ممانعت قرب شجر سے بھی کردی گئی۔ اسی طرح مشائخ محققین بعض دفعہ مباحات سے روک دیتے ہیں کہیں غیر مباح کی طرف منجر نہ ہوجائے۔
Top