Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 254
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَ لَا خُلَّةٌ وَّ لَا شَفَاعَةٌ١ؕ وَ الْكٰفِرُوْنَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے (ایمان والے) اَنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِمَّا : سے۔ جو رَزَقْنٰكُمْ : ہم نے دیا تمہیں مِّنْ قَبْلِ : سے۔ پہلے اَنْ : کہ يَّاْتِيَ : آجائے يَوْمٌ : وہ دن لَّا بَيْعٌ : نہ خریدو فروخت فِيْهِ : اس میں وَلَا خُلَّةٌ : اور نہ دوستی وَّلَا شَفَاعَةٌ : اور نہ سفارش وَالْكٰفِرُوْنَ : اور کافر (جمع) ھُمُ : وہی الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
اے ایمان والو جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرو،975 ۔ قبل اس کے کہ وہ دن آجائے،976 ۔ جس میں نہ تجارت کام آئے گی اور نہ دوستی اور نہ سفارش اور کافر ہی تو ظالم ہیں،977 ۔
،975 ۔ اللہ کی راہ میں مصارف خیر میں) (آیت) ” رزقنکم “ ضمیر متکلم لا کر اور رزق کو اپنی جانب منسوب کرکے صاف بتایادیا کہ مالی دولت جو کچھ بھی بندوں کے پاس ہے خود بخود سے نہیں خدا ہی کا بخشا ہوا عطیہ ہے، اسی کی دین ہے اور اسی کو حق حاصل ہے کہ جن کاموں میں چاہے ان کے صرف کرنے کا حکم دے دے۔ ،976 ۔ یعنی روز قیامت۔ مطلب یہ ہے کہ مصارف خیر میں صرف کرنے اور نیکیاں جمع کرنے کا موقع جو کچھ ہے اسی دنیا میں ہے، وقت کی قدر کرو، فرصت عمر کو نعمت سمجھو۔ ،977 ۔ (اپنے حق میں) ” ظلم “۔ کے اصلی معنی وضع الشیء فی غیر محلہ (کسی شے کو اس کے صحیح مقام پر نہ رکھنے) کے ہیں۔ اللہ یا اس کے قانون کو نہ ماننے سے بڑھ کر کون سا ظلم انسان کا اپنے حق میں ہوگا (آیت) ” لابیع “ جاہلی اور نیم جاہلی قوموں کی گمراہیاں ایک سے بڑھ کر ایک عجیب رہی ہیں، مشرک قومیں تو سرے سے روز جزاء کی قائل ہی نہیں۔ اہل کتاب نے اس کے وقوع کو مانا تو اس میں بھی یہ پخیں لگادیں کہ وہاں بھی دنیا کی طرح لین دین ہوسکے گا، کوئی کسی سے نیکیاں خرید لے گا کوئی کسی کے ہاتھ اپنی بدیاں فروخت کردے گا وقس علی ھذا قرآن نے اس ساری لغو خیالی کا خاتمہ کردیا، (آیت) ” ولاخلۃ “ خلۃ گہری جگری دوستی کو کہتے ہیں، مقصود ایسی دوستی کے نافع ہونے کا ابطال ہے جو ایمان کے بغیر کام دے سکے اور کفر کے مجرم کو نجات دلاسکے، اہل کتاب نے سمجھ رکھا تھا کہ یہاں کی نسبی رشتہ داریوں اور ذاتی خانگی دوستیوں سے وہاں کام چل جائے گا۔ جب گہری اور دلی دوستی کے نافع ہونے کی نفی ہوگئی، تو محض زبانی رسمی ظاہری تعلق کا لاحاصل ہونا تو اور زیادہ ظاہر ہے۔ (آیت) ” ولا شفاعۃ “ پہلی دو گمراہیوں کا بھی تعلق مسیحیوں سے تھا اور یہ تیسری گمراہی تو مسیحیت کے خصوصیات میں سے ہے۔ مسیحیوں کا عقیدہ ہے کہ ابن اللہ کی حیثیت شافع مطلق کی ہے۔ انسان کے قالب میں انہوں نے اسی لیے تو جنم لیا تھا کہ اپنی کا فدیہ سب گنہگاروں کی طرف سے دے کر اور سب کی طرف سے صلیب پر اپنے خون کا چڑھا واچڑھا کر قیامت میں شافع مطلق کی حیثیت سے ظاہر ونمودار ہوں اور ان کی شفاعت سب کے حق میں نجات کا حکم قطعی رکھے گی۔ ہمارے ہاں کے عام واعظوں اور نعت گو شاعروں نے شفاعت مصطفوی ﷺ پر حد سے زیادہ زور دینا شروع کیا ہے یہ صاف مسیحیت سے تاثر کا نتیجہ ہے (آیت) ” الکفرون “۔ یہاں وہی کا فرمراد ہیں جو اسی قسم کے عقائد کفریہ میں مبتلا ہیں۔ بعض فقہاء نے لکھا ہے کہ آیت سے بخل کی مذمت نکلتی ہے جو لوگ ضروری مصارف خیر میں خرچ نہیں کرتے، وہ اپنے کو اہل کفر اور اہل جہنم کے حکم میں لارہے ہیں۔
Top