Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 250
وَ لَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَ جُنُوْدِهٖ قَالُوْا رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَؕ
وَلَمَّا : اور جب بَرَزُوْا : آمنے سامنے لِجَالُوْتَ : جالوت کے وَجُنُوْدِهٖ : اور اس کا لشکر قَالُوْا : انہوں نے کہا رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اَفْرِغْ : ڈال دے عَلَيْنَا : ہم پر صَبْرًا : صبر وَّثَبِّتْ : اور جمادے اَقْدَامَنَا : ہمارے قدم وَانْصُرْنَا : اور ہماری مدد کر عَلَي : پر الْقَوْمِ : قوم الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اور جب وہ جالوت اور اس کی فوجوں کے مقابل آئے تو بولے اے ہمارے پروردگار ہمارے اوپر صبر ڈال دے، اور ہمارے قدم جمائے رکھ اور ہمیں غالب کر کافر لوگوں پر،956 ۔
956 ۔ ان دونوں آیتوں میں اللہ کے لشکر کے سپاہیوں کو آداب جنگ کی تعلیم ہے، کہ بہ خلاف عام دنیوی سپاہیوں کے ان کا تکیہ قوت و شوکت پر نہیں، بلکہ نصرت الہی پر ہوتا ہے۔ قرآن اور توریت موجودہ کے بیانوں کا مقابلہ کردیا جائے، توریت میں نفس جنگ کے خشک و خارجی واقعات کی تفصیل قرآن سے کہیں زائد ہے۔ لیکن وہ بس اسی پر قانع ہے۔ گویا کتاب تذکرہ وتاریخ کی ہے۔ ؛ قرآن مجید اس کے برخلاف ہر موقع پر تعلیم اصول دین اور اخلاق عالیہ کی دیتا جاتا ہے۔ اور یہی اس نے یہاں بھی کیا۔ (آیت) ” افرغ علینا صبرا “۔ یعنی ہمیں ثبات قلب کی توفیق دے۔ (آیت) ” ثبت اقدامنا “ یعنی ہمیں ثبات قدم نصیب کر۔ (آیت) ” فانصرنا “ ثبات قلب وثبات قدم کے بعد کافروں پر غلبہ تو قدرتی نتیجہ کے طور پر شاید حاصل ہو ہی جاتا۔ لیکن مومینن عافرین کی نظر اپنے سارے انتظامات اور ساری سعی سے کہیں بڑھ کر تائید الہی پر رہتی ہے۔ اس لیے صراحت کے ساتھ فتح و غلبہ کی دعا بھی ان کی زبان سے نقل کی گئی۔
Top