Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 195
وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ١ۛۖۚ وَ اَحْسِنُوْا١ۛۚ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ
وَاَنْفِقُوْا : اور تم خرچ کرو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَلَا : اور نہ تُلْقُوْا : ڈالو بِاَيْدِيْكُمْ : اپنے ہاتھ اِلَى : طرف (میں) التَّهْلُكَةِ : ہلاکت وَاَحْسِنُوْا : اور نیکی کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والوں کو
اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہو،712 ۔ اور اپنے کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو،713 اور اپنے کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو، اور اچھے کام کرتے رہو یقیناً اللہ اچھے کام کرنے والوں کو پسند کرتا ہے،714
712 ۔ (اپنا مال) جان قربان کر ڈالنے کا حکم تو قتال کے ذیل وضمن میں آچکا، اب حکم صرف مال کامل رہا ہے۔ (آیت) ” فی سبیل اللہ “ اس قید کا خوب کا خیال رہے، اسلام میں جس طرح محض جان دے دینا مطلوب ومقصود نہیں بلکہ وہ جان دینا مطلوب ومقصود ہے، جو خدا کی راہ میں ہو، اللہ کے دین کی بڑائی کے لئے ہو، اسی طرح مطلق صرف مال کی ہرگز کوئی وقعت وقدر نہیں، قدر صرف اس مال کی ہے جو باطل کی راہ میں نہیں، حق کی راہ میں ہو، ہوائے نفس کی تکمیل کے لیے نہیں، رضائے الہی کے حصول کے لیے ہو، یہاں اشارہ خاص جہاد و قتال کی جانب ہے، لیکن (آیت) ” فی سبیل اللہ کے الفاظ عام ہیں۔ ہر دینی خدمت میں مالی امداد اس کے تحت آجاتی ہے۔ یعنی فی طاعۃ اللہ (قرطبی) 713 ۔ (جان یا مال میں بخل کر کرکے) قرآن مجید میں جب صیغہ جمع حاضر آتا ہے تو کبھی تو افراد مخاطب ہوتے ہیں اور کبھی جماعت، یہاں اصل مخاطب امت سے بہ حیثیت مجموعی ہے۔ اور بیان یہ حقیقت ہورہی ہے کہ افراد امت نے اگر جہاد و قتال سے جان چرائی، اور مجاہدین کو مالی امداد دینے میں بخل کیا، تو نتیجہ لازمی طور پر ساری امت کی تباہی، بربادی، ہلاکت کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ (آیت) ” ولا تلقوا بایدیکم “ اصل تقدیر کلام یوں ہے : ولا تلقوا انفسکم بایدیکم یا انفسکم (اپنے آپ کو) محذوف ہے قیل تقدیرہ ولا تلقوا انفسکم بایدیکم (کشاف) اے لا ترفعوا انفسکم فی الھلاک (بیضاوی) (آیت) ” التھلکۃ “ لفظی ہلاکت کے ہیں۔ یہاں مراد یہ ہے کہ امت کی ضرورت کے موقع پر بخل کرکے امت کو بربادی میں نہ ڈالو اور یہی معنی ابن عباس، ابوایوب انصاری، اور حذیفہ ؓ اجمعین صحابیوں سے اور حسن اور قتادہ اور عکرمہ اور عطاء تابعین سے مروی ہیں، اور محدث جلیل امام بخاری نے بھی یہی معنی اختیار کیے ہیں۔ بترک الانفاق فی سبیل اللہ وھو قول حذیفۃ والحسن وقتادۃ وعکرمۃ وعطاء (معالم) وقال حذیفۃ بن سلیمان وابن عباس وعکرمہ وعطاء ومجاھد وجمھور الناس المعنی لا تلقوا بایدکم انتترکوا النفقۃ فی سبیل اللہ ولا تخافوا عیلۃ والی ھذا المعنی ذھب البخاری اذلم یذکر غیرہ (قرطبی) التھلکۃ الاقامۃ فی الاھل والمال وترک الجھاد (کشاف عن ابی ایوب الانصاری) بعض نے یہ معنی بھی لیے ہیں کہ بہت زیادہ خڑچ کرکے اپنے کو تباہ حال نہ کردو۔ وقال الجبائی التھلکۃ الاسراف فی الانفاق (روح) اے بالاسراف وتضیع وجہ المعاش (بیضاوی) قیل ھو الاسراف فی الانفاق حتی الایجدما یا کل ویشرب فیتلف (جصاص) ۔ 714 ۔ قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ کی جانب رغیب والتفات، ناپسندیدگی وبیزیدگی، وبیزاری کے افعال وصفات بارہامنسوب کیے ہیں۔ چناچہ یہاں بھی اللہ کے لیے ہے کہ (آیت) ” یحب المحسنین۔ ان سارے افعال وصفات کے لانے سے ایک بڑا مقصود ان گمراہ قوموں کی تردید ہے، جو وجود باری کے تو قائل ہیں، لیکن خدا تعالیٰ کو صفات کمال و جمال سے معزی ایک طرح کا محض جامد، بےجان، بےحسن، علت العلل سمجھے ہوئے ہیں ! اسلام کا خدا، قرآن کا خدا ہر معنی میں ایک زندہ خدا، بیدار، متحرک، فعال خدا ہے۔ خوش بھی ہوتا ہے ناخوش بھی۔ مخلوق کو محبوب بھی رکھتا ہے، مبغوض بھی، صلہ بھی دیتا ہے، اور سزا بھی۔ (آیت) ” احسنوا “۔ یعنی جو کچھ بھی کرو، حسن نیت واخلاص کے ساتھ کرو۔ محض بیگار سمجھ کر بوجھ سا نہ اتارو۔ صحابیوں سے اسی قسم کے معنی مروی ہیں۔ اے احسنوا اعمالکم بامتثال الطاعات روی ذلک عن بعض الصحابۃ (قرطبی) احسنوا اعمالکم وافعالکم (بیضاوی) ۔
Top