Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 193
وَ قٰتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ یَكُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰهِ١ؕ فَاِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَى الظّٰلِمِیْنَ
وَقٰتِلُوْھُمْ : اور تم ان سے لڑو حَتّٰى : یہانتک کہ لَا تَكُوْنَ : نہ رہے فِتْنَةٌ : کوئی فتنہ وَّيَكُوْنَ : اور ہوجائے الدِّيْنُ : دین لِلّٰهِ : اللہ کے لیے فَاِنِ : پس اگر انْتَهَوْا : وہ باز آجائیں فَلَا : تو نہیں عُدْوَانَ : زیادتی اِلَّا : سوائے عَلَي : پر الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فساد (عقیدہ) باقی نہ رہ جائے،703 ۔ اور دین اللہ ہی کے لیے رہ جائے704 ۔ سو اگر وہ باز آجائیں،705 ۔ تو سختی (کسی پر بھی) نہیں بجز (اپنے حق میں) ظلم کرنے والوں کے،706 ۔
703 ۔ (ان لوگوں میں، یاسر زمین عرب پر) (آیت) ” قتلوھم “ میں ھم کی ضمیر کس کی طرف ہے ؟ جنگ جاری رکھنے کا حکم کس کے مقابلہ میں دیا جارہا ہے ؟ ظاہر ہے کہ روئے زمین کے عام کفار بھی مراد ہوسکتے ہیں، اور مشرکین عرب بھی سمجھے جاسکتے ہیں، لیکن فقہاء حنفیہ اور بہ کثرت تابعین نے مراد مشرکین مکہ ہی سے لی ہے۔ ومن راھا غیر ناسخۃ قال المعنی قاتلوا ھو لآء الذین قال اللہ فیھم فان قاتلوکم (قرطبی) وھم کفار مکۃ والفتنۃ ھھنا الشرک ولا یسن بھمسنۃ اھل الکتب فی قبول الجزیۃ قالہ ابن عباس وقتادۃ والربیع والسدی (بحر) عطف علی قاتلوا الذین یقاتلونکم ویؤیدہ ان مشرکین العرب لیس فی حقھم الا الاسلام اوالسیف (روح) وھذہ الایۃ خاصۃ فی المشرکین دون اھل التب لان ابتداء الخطاب جری بذکرھم فی قولہ عزوجل واقتلوھم حیث ثقفتوھم واخرجوھم من حیث اخرجوکم وذلک صفۃ المشرکین اھل مکۃ الذین اخرجوا النبی ﷺ و اصحابہ فلم یدخل اھل الکتب فی ھذا الحکم (جصاص) (آیت) ” حتی “۔ یہاں اظہار غایت کے لیے ہے اور کے یا الی، ان کے مرادف ہے۔ وھذا البیان غایۃ القتال (روح) حتی بمعنی کے یا الی، ان (مدارک) (آیت) ” لاتکون فتنۃ “ یعنی حدود حرم اور حدود عرب کے اندر شرک وکفر باقی نہ رہنے پائے۔ فتنہ سے یہاں کفر وشرک کے مراد ہونے پر کہنا چاہیے کہ محققین امت کا اجماع ہے۔ اے شرک قالہ ابن عباس وابو العالۃ و مجاھد والحسن وقتادہ والربیع ومقاتل بن حیان والسدی (ابن کثیر) اے الشرک باللہ فی الحرم (ابن عباس ؓ اے حتی لاتکون شرک باللہ وحتی لا یعبددونہ احد (ابن جریر) قال ابن عباس وقتادۃ و مجاھد والربیع ابن انس الفتنۃ ھھنا الشرک وقیل انما سمی الکفر فتنۃ لانہ یؤدی الی الھلاک کما یؤدی الیہ الفتنۃ (جصاص) اگر وہ لوگ اسلام نہ لائیں تو گو اور کفار سے جزیہ دینے کے اقرار پر قتال سے دستکش ہونے کا حکم ہے۔ لیکن یہ خاص کفار چونکہ اہل عرب ہیں، ان کے لیے قانون جزیہ نہیں ہے۔ بلکہ ان کے لیے اسلام ہے یا قتل (تھانوی (رح) اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے، اس کے لیے ضروری تھا کہ اس کا ایک جغرافی مرکز ہو، مستقر ہو۔ اور روئے زمین پر کم از کم ایک خطہ تو ایسا ہو، جو شرک وکفر سے قطعا پاک، اور اہل توحید کے لیے صحیح معنی میں ” پاکستان “ ہو۔ اور اس غرض کے لیے مولد رسول ﷺ ومہبط قرآن سے بڑھ کر سرزمین اور کون ہوسکتی تھی ؟ قدرۃ انتخاب اس کے لیے سرزمین عرب کا ہوا۔ کفار عرب اگر اسلام نہ لائیں تو ان لیے صرف قتل کا قانون ہے۔ اگر وہ جزیہ دینا چاہیں تو نہ لیا جائے گا۔ (تھانوی (رح ) 704 ۔ (خالصۃ۔ اور کفر وشرک ہر دین باطل کا زور ٹوٹ کر رہے) ذکر وہی خطہ عرب کی خالص اسلامی حکومت کا چل رہا ہے کہ کم از کم اس ” پاکستان “ میں کفر وترغیبات کفر کے لیے موقع ہی باقی نہ رہیں۔ یکون الاسلام والعبادۃ للہ فی الحرم (ابن عباس ؓ علی وجہ المداومۃ والعادۃ (جصاص) 705 ۔ (اپنے کفر و انکار سے، اور ملت اسلامیہ میں داخل ہوجائیں) عن قتالکم ودخلوا ملتکم واختروا بما الزمکم اللہ من فرائضہ (ابن جریر) عن الکفر واسلموا (معالم) 706 (جواسی بےانصافی کی راہ سے اب تک دین توحید تک سے منکر ہیں) اور جب یہ تائب ہو کر مسلمان ہوگئے تو ظاہر ہے کہ اب اپنے حق میں ظالم باقی نہیں رہے۔ اور اب ان کے حق میں سزائے قتل وغیرہ کا حکم باقی نہ رہا۔ فلاسبیل لکم بالقتل (ابن عباس ؓ (آیت) ” عدوان “۔ اس کے لفظی معنی زیادتی کے ہیں یہاں سزا اور سزائے قتل کے معنی میں ہے۔ والمراد من العدوان ھھنا المعاقبۃ والمقاتلۃ ( ابن کثیر) اے العقوبۃ بالقتل (روح) عربی اسلوب بیان میں ایک دستوریہ بھی ہے کہ جزاء عمل کے موقع پر بعینہ وہی لفظ بول دیا جاتا ہے جو خود اس عمل کے لیے ہوتا ہے۔ مثلا مفکر کے مقابلہ میں مکر ہی کا لفظ کید کی سزا کے موقع پر لفظ کید کا استعمال، استھزاء کے معاوضہ میں لفظ استھزاء وقس علی ھذا۔ اس صنعت کا نام مشاکلت ہے اور قرآن مجید نے عربی بلاغت کی دوسری صنعتوں کی طرح اس کا بھی بار بار استعمال کیا ہے، چناچہ یہاں سزائے عدوان کے موقع پر خود لفظ عدوان کا لانا اسی طرز پر ہے۔ ومن العدوان الذی ھوعلی سبیل المجازاۃ قولہ فلان عدوان الاعلی الظمین (راغب) انہ ذلک علی وجہ المجازاۃ لما کان من المشرکین من الاعتداء (ابن جریر) سمی جزاء الظلمین ظلما للمشاکلۃ (کشاف) ارادھنا بالعدوان الجزاء یقول لاجزاء ظلم الا علی ظالم (ابن قتیبہ)
Top