Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 190
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
وَقَاتِلُوْا : اور تم لڑو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يُقَاتِلُوْنَكُمْ : تم سے لڑتے ہیں وَلَا تَعْتَدُوْا : اور زیادتی نہ کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : نہیں پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : زیادتی کرنے والے
اور اللہ کی راہ میں لڑو ان لوگوں سے جو تم سے لڑتے ہیں،695 ۔ اور حد سے باہر مت نکلو، کہ اللہ حد سے باہر نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا،696 ۔
695 ۔ (آیت) ” قاتلوا “۔ قتال کا یہ حکم ان مظلوم مسلمانوں کو مل رہا ہے، جو دو چار مہینے نہیں، پورے تیرہ برس مکہ میں ہر طرح کے شدائد پر، اور شدائد کیسے، یہ کہیے شقاوت، سفاکی، بہیمیت پر، صبر کے امتحان میں پورے اتر چکے تھے، اور اب وطن سے بےوطن ہوکر، گھر بار چھوڑنے پر بھی، مدینہ میں چین سے نہیں بیٹھنے پاتے تھے۔ اللہ تربت ٹھنڈی رکھے لارڈ ہیڈلے انگریز کی، نومسلم ہو کر بات پتہ کی کہہ گیا ہے، کہ اسلامی غزوات کے تین ابتدائی جغرافی محل وقوع کو دیکھ کر خود فیصلہ کرلو، کہ لڑائی کی ابتداء کس نے کی، اور چڑھائی کون کس پر کرکے گیا تھا ؟ حملہ اور جارحانہ اقدام کون کررہا تھا، اور حفاظت خود اختیاری ومدافعت میں کون لڑرہا تھا ؟ مکہ کے جنگجواہل فساد، یا مدینہ کے صابر وشاکر مومنین ؟ ( 1) جنگ بدر۔ بدر میں ہوئی، مدینہ سے کل تیس میل کے فاصلہ پر۔ جنگ احد۔ احد تو مدینہ سے کل بارہ ہی میل ہے ، (3) جنگ احزاب۔ اس میں تو محاصرہ خود مدینہ ہی کا ہوا ! غرض ہر دفعہ قریش مکہ یا ان کے حلیف و مددگار ہی چڑھ چڑھ کر آئے، (آیت) ” الذین یقاتلونکم “۔ خود یہ لفظ کیا بتا رہے ہیں۔ ؟ دو باتیں بالکل صاف ہوئی جاتی ہیں۔ ( 1) ایک یہ کہ جنگ کی ابتداء کرنے والے مسلمان نہ تھے، ابتداء دوسرا ہی فریق کررہا تھا۔ اے الذین یبدء ونکم بالقتال (ابن عباس ؓ اے یناجزونکم القتال دون المحاجزین (مدارک) اے یحل لکم القتال ان قاتلکم الکفار (قرطبی) (2) دوسرے یہ کہ قتال کا حکم صرف انہی افراد کے مقابلہ میں ہے جو واقعی لڑ رہے ہوں، یا آج کل کی اصطلاح میں صرف مصافیوں Combatants کے مقابلہ میں۔ غیر مصافی Non.combatants آبادی کے سروں پر بم برسا دینے، پر امن شہریوں پر ہوائی تاخت کرنے، اور ان پر زہر یلی گیسیں چھوڑنے کے ” مہذب ترین “ آئیں حرب سے اسلام کا قانون جنگ ناآشنا ہے۔ بوڑھوں، بچوں، عورتوں، اپاہجوں، بیماروں، گوشہ نشینوں، غرض ایسے کل لوگ جو جنگ سے معذور ہوں، انہیں رسول ﷺ کے خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے تو صراحت کے ساتھ مستثنی قرار دیا ہی ہے۔ لیکن خود یہ آیت بھی اس استثناء کی جانب صاف مشیر ہے۔ لاتقتلوا النساء ولاالصبیان ولا الشیخ الکبیر ولا من القی الیکم السلم وکف یداہ (ابن عباس ؓ اے لا تقاتل من لایقاتلک یعنی النساء والصبیان والرھبان (ابن جریر، عن بن عبدالعزیز) عن ابن عمر ؓ قال وجدت امرأۃ فی بعض مغازی النبی ﷺ مقتولۃ فانکر رسول اللہ ﷺ قتل النساء والصبیان (بخاری۔ مسلم) کان النبی ﷺ اذا بعث جیشا قال اغزوا بسم اللہ وفی سبیل اللہ ولا تقتلوا امرأۃ ولا ولیدا ولا شیخا کبیرا (معالم، عن بریدۃ) امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے اصل حکم میں تو پھل دار درخت کا کاٹنے تک کی ممانعت ہے۔ آپ نے یہ حکم خلافت اسلامیہ کے پہلے سپہ سالار فوج (کمانڈر انچیف) یزید بن ابی سفیان ؓ کو دیا تھا۔ اور ان کی مشایعت آپ نے پاپیادہ چل کر کی تھی۔ اس حکم نامہ کے الفاظ یہ نقل ہوئے ہیں :۔ وانی اوصیک بعشر لاتقتلن امرأۃ ولا صبیا ولا کبیرا ھرما ولا تقطعن شجرا مثمرا ولا تخربن عامرا ولا تعقرن شاۃ ولا بعیرا لا لما کلۃ ولا تحرقن نخلا ولا تفرقنہ (طبقات ابن سعد) البتہ الذین یقاتلونکم سے یہ بھی مراد نہیں کہ جب دشمن واقعۃ سر پر آجائے، اور لڑائی شروع کردے جبھی تم قتال کرو، اتنے انتظار وتوقف کے معنی ہوں گے کہ آدھی جیت ان کی ہوگئی، جیسا کہ اس زمانہ کی لڑائیوں میں برابر مشاہدہ بھی ہورہا ہے۔ بلکہ غنیم کا ارادہ اور آمادگی ہی اسے اس حکم کے تحت میں لے آنے کے لیے کافی ہے۔ (آیت) ” فی سبیل اللہ “۔ یہ قید کتنی اہم اور دنیا تاریخ محاربات میں کیسی انقلاب انگیز ہے ! دنیا میں لڑائیاں ہمیشہ لڑی گئیں، اب بھی لڑی جارہی ہیں، آئندہ بھی لڑی جائیں گی، لیکن کا ہے کے لئے ؟ زر کے لیے، یازن کے لیے، یا زمین کے لیے۔ زیادہ سے زیادیہ کہ ” قوم “ اور ” وطن “ کے لیے ! یعنی زروزمین کی طلب فرد کے لیے نہیں بلکہ قوم کے لیے رہ جائے، یہ خصوصیت صرف اسلامی جہاد ” بدنام ورسوا “ اسلامی جہاد کی ہے، کہ جب کبھی اور جن حالات میں شروع ہو، اللہ کی راہ میں ہو۔ شرک کو مٹانے اور توحید کو بلند کرنے کے لئے ہو، دین حق کی حمایت ونصرت میں ہو، انسانی حکومت مٹا کر خدائی حکومت قائم کرنے کے لیے ہو، خودی کے لیے نہیں، خدا کے لیے ہو، نفس کے لیے، قبیلہ کے لیے ” حلقہ اثر “ کی توسیع کے لیے ” آزادی تجارت “ کے لیے ” آزادی “ سمندر “ کے لیے ” نوآبادیوں کے تحفظ “ کے لیے ” برآمد کی منڈیاں “ پیدا کرنے کے لیے، غرض نئی اور پرانی قسم کی بھی عصبیت جاہلی کے جھنڈے نیچے نہ ہو، صاف صاف فی سبیل اللہ ہو، اور فی سبیل اللہ کے معنی ہیں لاغزاز دین اللہ۔ الجھاد الاعلاء کلمۃ اللہ و اعزاز الدین (مدارک) اے جاھدوا لاعلاء کلمتہ کلمتہ و اعزاز دینہ (بیضاوی) یعنی دینا واظہارا للکلمۃ (قرطبی) اے فی طاعتہ وطلب رضوانہ (کبیر) قتال کا طریقہ دوسری امتوں سے نرالا کچھ امت محمدی ﷺ کے ساتھ مخصوص نہیں، بائبل میں اس کا ذکر ایک دو جگہ نہیں، بیسیوں جگہ موجود ہے۔ اور محاربات یہود سے تو تاریک کے دفتر کے دفتر رنگین ہیں، رہیں مسیحی قومیں اور ان کی خونریزیاں، اور خون آشامیاں، تو ان کی نظیر تو دنیا کے پردہ پر کہیں نہ ملے گی، عیاں راچہ بیاں ! اور عملاجو نمایاں فرق اسلامی فاتحیں کی رحمدلی اور مسیحی فاتحین کی سنگدلی کے درمیان رہا ہے، اس کا اعتراف تو خود مسیحی اہل قلم کو ہے۔ مثال کے لیے ملاحظہ ہو Finlays, Greece uner the Romamns, صفحہ 353 ۔ نیز Bosworth۔ Smiths Mohammad Mohammadanism صفحہ 2 17 وصفحہ 2 18 ۔ امام رازی (رح) نے فرمایا کہ آیت ما قبل میں ابھی ابھی تقوی کی تاکید آچکی ہے، اب اسی مناسبت سے ذکر تقوی کی شدید ترین اور نفس کے لیے دشوار ترین قسم یعنی قتال و جہاد کا شروع ہوا ہے لما امر ھالتقوی فی ھذہ الایۃ باشد اقسام التقوی واشقھا علی النفس (کبیر) 696 ۔ (آیت) ” ولاتعتدوا۔ اعتداء کے لغوی معنی حق سے تجاوز کرجانے کے ہیں، مجاوزۃ الحق۔ اور اس تجاوز کی متعدد صورتیں ممکن ہیں۔ حد سے مراد حد شریعت بھی ہوسکتی ہے۔ مثلا یہ کہ انتقام کے جوش یا فتحمندی کے زور میں بےتحاشا غنیم کے مصافی وغیر سب مصافی سب کو قتل کرنا شروع کردیا جائے، ان کے کھیتوں، باغوں، چراگاہوں میں آگ لگادی جائے، ان کے بےزبان جانور تلوار کے گھاٹ اتار دیئے جانے لگیں، وقس علی ھذا، قرآن نے دنیا کو سبق یہ دیا کہ قوت کا استعمال صرف اسی حدتک جائز ہے جس حد تک ناگزیر ہے۔ حد سے مراد حد معاہدہ بھی ہوسکتی ہے۔ مثلا یہ کہ بدعہد و پیمان شکن قوموں کی دیکھا دیکھی خود بھی معاہدوں کی پروانہ کی جائے، اور عہد شکنی کی ابتداء اپنی طرف سے کرکے ہلہ بول دیا جائے۔ اسی طرح اور بھی پہلو تجاوز حدود کے نکل سکتے ہیں، حق یہ ہے کہ اعتداء کا لفظ زیادتی کے ہر پہلو کو جامع ہے، اور ہر قسم کی زیادیتوں کی ممانعت اس سے نکل آئی۔ اے لاتعتدوا بابتدآء القتال اوبقتال المعاھد اولمفجاۃ بہ من غیر وعدۃ اوالمثلۃ اوقتل من نھیتم عن قتلہ (بیضاوی) اے لا تعدوا بوجہ من الوجوہ (روح) اور اعتداء اور تجاوز کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ قتال علاوہ فی سبیل اللہ کے کسی اور غرض کے لیے شروع کردیا جائے۔ چناچہ بعض دقیق النظر مفسریں نے یہ پہلو بھی لیا ہے۔ اے لاتقاتلوا علی غیر الدین (ابن العربی) المعنی لاتعتدوا فی القتال لغیر وجہ اللہ کالحمیۃ وکسب الذکر (قرطبی) قلبہ واقتدار کے وقت انتقام کے حدود کے اندر رہنا اخلاق کے مرتبہ اعلی کا مقام ہے، اچھے اچھوں کی عقل، متانت اور قوت عدل و توازن اس وقت جواب دے دیتی ہے اور کل کے مظلوم، بیساختہ اور شاید اور شاید بےشعوری کے عالم میں، آج کے ظالم بن جاتے ہیں، قرآن مجید کا اس موقع پر اپنے پیرو وں کو ضبط و احتیاط کی تلقین کرنا، افراد امت کو حکمت واخلاق فاضلہ کے بلند سے بلند مقام پر پہونچا دینا ہے۔ اور پھر جب یاد کرلیا جائے، کہ آیت کا موقع نزول ذیقعدہ 7، ہجری، جب معاہدہ حدیبیہ کے دوسرے سال مسلمان عمرہ کی نیت سے مکہ روانہ ہورہے تھے، اور اندیشہ تھا کہ مشرکین معاہدہ کو توڑ کر جنگ شروع کردیں گے، اور اس کے جواب میں قدرۃ مسلمان بھی اشتعال سے لبریز ہوجائیں۔ تو آیت کے اس تاکیدی اور امتناعی حکم کی قدر ومنزلت کس درجہ اور بڑھ جاتی ہے ! پھر فتح مند کی گھڑیوں میں ایسی ہدایت پر عمل دنیا کی کسی قوم نے آج تک کیا ہے بجز رسول ﷺ کے صحابیوں، اور خلافت اسلامیہ کے سپاہیوں کے ؟ سوال عقیدت کا نہیں، محض تاریخ کا ہے۔
Top