Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 188
وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَلَا : اور نہ تَاْكُلُوْٓا : کھاؤ اَمْوَالَكُمْ : اپنے مال بَيْنَكُمْ : آپس میں بالْبَاطِلِ : ناحق وَتُدْلُوْا : اور (نہ) پہنچاؤ بِهَآ : اس سے اِلَى الْحُكَّامِ : حاکموں تک لِتَاْكُلُوْا : تاکہ تم کھاؤ فَرِيْقًا : کوئی حصہ مِّنْ : سے اَمْوَالِ : مال النَّاسِ : لوگ بِالْاِثْمِ : گناہ سے وَاَنْتُمْ : اور تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طور پر مت کھاؤ اڑاو،687 ۔ اور نہ اسے حکام تک پہنچاؤ کہ جس سے لوگوں کے مال کا ایک حصہ تم گناہ سے کھا جاؤ، درآنحالیکہ تم جان رہے ہو،688 ۔
687 ۔ (اے اہل ایمان ! ) (آیت) ” لاتاکلوا “ اکل۔ یہاں لفظی معنی میں نہیں۔ یعنی صرف ’ کھانا ‘ مراد نہیں، بلکہ کسی طرح بھی اپنے تصرف میں لے آنا ہے۔ عبریا لاکل عن انفاق المال (راغب) عبربہ عن الاخذ والاستیلاء (بحر) اردو محاورہ میں بھی ایسے موقع پر بولتے ہیں، فلاں صاحب روپیہ کھا گئے یا رقم ہضم کرگئے۔ (آیت) ” بالباطل “ باطل سے مراد ہے ہر ناجائز طریق۔ فاکل المال بالباطل صرفہ الی ماینا فیہ حق (راغب) اے بالوجہ الذی لایبیحہ اللہ تعالیٰ (بیضاوی) ولمراد من الباطل الحرام وکل مالم یاذن باخذہ الشرع (روح) گویا دو مختصر لفظوں میں تقوی مال کی ساری تعلیم آگئی۔ ہر خیانت سے احتیاط کی تاکید، اور ہر قسم کی امانت ودیانت کا حکم۔ اور فقہاء نے اکل باطل کی جو تفصیل لکھی ہے، اسی میں قمار، غصب، حق تلفی وغیرہ کے ساتھ ایک مد یہ بھی بڑھا دی ہے کہ وہ مال بھی باطل ہی کے حکم میں آجاتا ہے، جو مال لاتطیب بہ نفس مال کہ اوحرمہ الشریعۃ وان طابت بہ نفس مالکہ (قرطبی) (اور مال کے مالک سے بغیر اس کی خوشدلی کے حاصل کیا جائے۔ یا مالک گوا سے خوشدلی سے دے رہا ہو لیکن خود شریعت نے اس مد کو ناجائز قرار دیا ہو) (آیت) ” اموالکم “۔ خطاب تمام مومنین کو ہے، اور حکم کے مخاطب افراد امت ہیں۔ اردو میں (آیت) ” اموالکم “ کا صحیح مفہوم ” اپنا مال “ سے نہیں بلکہ ” ایک دوسرے کا مال “ سے ظاہر ہوگا۔ جیسے (آیت) ” اقتلوا انفسکم “ سے مراد ” ایک دوسرے کا قتل کرنا “ ہے۔ والمعنی لا یا کل بعضکم مال بعض (بحر) والمعنی لایاکل بعضکم مال بعض بغیر حق (قرطبی) ڈاکٹر رابرٹ رابرٹس نے ایک کتاب قرآن مجید کے قوانین معاشری پر لکھی ہے۔ اس میں اس آیت کو نقل کرکے لکھا ہے :۔ ” یہ آیت اس امر کی شہادت مزید ہے کہ محمد ﷺ نے اپنے پیرو وں میں کتنی تاکید باہمی حسن معاملت کے باب میں رکھی ہے “۔ (سوشل لاز آف دی قرآن، صفحہ 108) (آیت) ” بینکم “ کے دائرہ کی وسعت میں فقہاء نے ساری نسل آدم (علیہ السلام) کو داخل کیا ہے، اور صرف مسلمانوں کے مال تک حکم کو محدود نہیں رکھا ہے، مسلم ہو یا کافر، کسی کا بھی مال دغا، فریب، ظلم وغیرہ سے لینا جائز نہیں۔ صرف کافر حربی کے مال پر تصرف و تسلط جائز ہے کہ اس سے تو اعلان جنگ ہو ہی چکا ہے، لیکن اس سے بھی علی الاطلاق نہیں، بلکہ خاص خاص قیود و شرائط کے ساتھ۔ رشوت، جعلسازی، خیانت، کافر حربی کے معاملات میں بھی درست نہیں۔ 688 ۔ (کہ تم ناحق اور زیادتی پر ہو) دنیا کی کوئی عدالت بہتر سے بہتر ہو، اور کوئی حاکم عادل سے عادل سہی، بہرحال دنیوی فیصلے علم غیب کی بنا پر نہین، روایداد مقدمہ ہی کی بنا پر صادر ہوں گے۔ اور ان میں غلطی، لغزش، ناانصافی، دھوکے کا احتمال ہر وقت ہے۔ آیت اسی حقیقت کی طرف توجہ دلا رہی ہے، کہ جو حق ہے وہ عنداللہ حق ہی رہے گا اور جو ناحق ہے وہ اللہ کے ہاں ناحق ہی شمار ہوگا۔ اگرچہ حکام کا فیصلہ اس کے برعکس ہی ہو، جو قاضی کے فیصلے حق کو اور ناحق کو حق نہیں بنا سکتے۔ اصل شے انسان کی توجہ ولحاظ کے قابل خود اس کا ضمیر اور تقوی ہے۔ حدیث میں اس مضمون کی صراحت بہت زور کے ساتھ آچکی ہے اور مفسرین بھی اسے خوب صاف کرچکے ہیں ،۔ اعلم ابن ادم ان قضاء القاضی لایحل لک حرما ولا یحق لک باطلا انما یقضی القاضی بنحو ما یری ویشھد بہ الشھود والقاضی بشریخطی ویصیب (ابن جریر) ومن الاکل بالباطل ان یقضی القاضی لک وانت تعلم انک مبطل فالحرام لا یصیر حلالا بقضاء القاضی لانہ انما یقضی بالظاہر وھذا اجماع فی الاموال (قرطبی) علی القول بھذا الحدیث جمھور العلماء وائمۃ الفقھاء وھو نص فی ان حکم الحاکم علی الظاھر لایغیر حکم الباطن (قرطبی) وھذا رسول اللہ ﷺ المصطفی للاطلاع علی الغیب یتبرأ من الباطن فیکف یغیرہ من الخلق (ابن العربی) بلکہ جو لوگ اپنی چرب زبانی سے، سخن سازی سے، اپنے ” اثر “ و ” پیروی “ سے جھوٹے مقدمے جیت جائیں، انہیں اور زیادہ ڈرنا چاہیے کہ ان پر علاوہ دوسرے جرائم اور فریق ثانی کی حق تلفی کے، ایک مزید جرم حاکم عدالت کو فریب میں مبتلا کرنے کا بھی عائد ہوگا، (آیت) ” تدلوابھا “۔ ھا کی ضمیر، اموال کی طرف ہے، ب فعل۔ ادلاء کا حرف صلہ ہے۔ (آیت) ” تدلوا “۔ ادلاء کے معنی کنوئیں میں ڈول ڈالنے، اور پھر مجازا کسی چیز کو کہیں پہونچانے یا اسے ذریعہ یا وسیلہ بنانے کے ہیں۔ ادلی تھا اے اخرج تھا وقیل یکون بمعنی ارسل تھا واستعیر للتوصل الی الشیء (راغب) واصل الادلاء ارسال الرجل الدلوفی سبب متعلقابہ (ابن جریر) مطلب یہ ہوا کہ مال کو حکام تک پہونچنے کا، اپنی رسائی اور رسوخ پیدا کرنے کا ذریعہ نہ بناؤ۔ اور رشوت وغیرہ مالی تحفہ وتحائف سے حکام پر اثر نہ ڈالو۔ اے لا ترشوھا الیھم (کبیر) اے تلقوا بعضھا الی حکام السوء علی وجہ الرشوۃ (مدارک) اسلامی حکومت قائم ہونا اور اسلام کے سارے قانون دیوانی وفوجداری کا نافذ ہونا تو خیر بڑی چیز ہے، قرآن مجید کی صرف اسی آیت پر اگر آج عملدر آمد ہوجائے، تو جھوٹے دعوؤں، جعلی کاغذات، جھوٹی گواہیوں، جھوٹے حلف ناموں، اہلکاروں، اور عہدہ داروں کی رشوتوں کے ساتھ ساتھ اعلی احکام کی خدمت میں نذر، نذرانوں، قیمتی ڈالیوں، شاندار دعوتوں کا وجود کہیں باقی رہ جائے ؟ (آیت) ” بالاثم “ گناہ کا لفظ عام ہے۔ ہر قسم کی معصیتیں جو عدالتی کارروائیوں اور انتظامی معاملات کے سلسلہ میں کام میں لائی جاتی ہیں۔ اس کے تحت میں آجاتی ہیں۔ اے بالظلم والتعدی (قرطبی) بشھادۃ الزور اوبالایمان الکاذبۃ اوبالصلح مع العلم بان المقضی لہ ظالم (مدارک) (آیت) ” فریقا “ فریق کے معنی یہاں پارٹی یا گروہ کے نہیں، بلکہ حصہ یا جزو کے ہیں۔ اے قطعۃ وجزوا (قرطبی) قطعۃ وجملۃ (روح)
Top