615 ۔ یعنی حیوانات کے سلسلہ میں تو شریعت الہی کی حرام کی ہوئی بس یہ چیزیں ہیں، نہ وہ چیزیں جو تم نے اپنی تجویز سے گڑھ رکھی ہیں، یہاں تردید تمامتر مشرکوں کے خود تراشیدہ محرمات کی ہورہی ہے۔ باقی جو چیزیں حدیث صحیح کی بنا پر، یا کسی اور دلیل شرعی سے حرام ہیں، ان سے آیت کو کوئی بحث نہیں۔ لیس المراد من الایۃ قصر الحرمۃ علی ما ذکر مطلقا بل مقید بما اعتقدوہ حلالا (روح) (آیت) ” المیتۃ “۔ میتہ یا مردار وہ جانور ہے جو بغیر کسی کے ہلاک کیے از خود مرجائے، یا ہلاک تو کیا جائے لیکن ذبح شرعی کے مطابق نہ ہو۔ ھو غیر المزکی اما لانہ لم یذبح اوانہ ذبح ولکن لم یکن ذبحہ ذکاۃ (کبیر) وھی کل مافارقہ الروح میں غیر ذکاۃ مما یذبح (مدارک) زندہ جانور کے اگر گوشت کا کچھ حصہ کاٹ لیاجائے۔ تو وہ بھی مراد ہی کے حکم میں داخل ہوگا۔ حنیفہ کے ہاں مردار سے کسی قسم کا بھی نفع حاصل کرنا جائز نہیں۔ یہاں تک کہ مردار گوشت کتوں اور شکاری پرندوں کو کھلانا بھی درست نہیں کہ یہ بھی تو اس سے نفع اٹھانا ہی ہوا۔ درآنحالیکہ قرآن میں مردار کی حرمت مطلق صورت میں ہے۔ قال اصحابنا لایجوز الانتفاع بالمیتۃ علی وجہ ولا یطعمھا الکلاب واجوارح لان ذلک ضرب من الانتفاع بھا وقد حرم اللہ المیتۃ تحریما مطلقا معلقا بعینھا (جصاص) لیکن عمل دباغت کے بعد، مردار کی ہڈی، کھال وغیرہ پاک ہوجاتی ہے اور مردار کے حکم میں رہتی ہی نہیں۔ یہ مسئلہ احادیث وآثار سے ثابت ہے، اور حنفیہ اور بعض دوسرے ائمہ فقہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ قال ابوحنیفۃ و اصحابہ والحسن بن صالح وسفیان الثوری وعبداللہ بن الحسن العنبری والاوزاعی والشافعی یجوز بیعہ بعد الدباغ والانتفاع بہ (جصاص) والحجۃ لمن طھرھا وجعلھا زکاۃ ماورد عن النبی ﷺ من الاثار المتواترۃ من الوجوہ المختلفۃ بالفاظ مختلفۃ کلھا یوجب طھار تھا والحکم برکا تھا (جصاص) اور احادیث اس قسم کی وارد ہوئی ہیں : ایما اھاب دبغ فقد طھر (عن ابن عباس ؓ دباغ جلود المیتۃ طھورھا (عن زید بن ثابت) زکاۃ الادیم دباغتہ (عن سلمہ بن المخیق) دو جانور ایسے ہیں جو حدیث صحیح کی رو سے بغیر ذبح بھی جائز ہیں۔ ایک مچھلی دوسرے ٹڈی۔ وقد احلت المیتتان بالحدیث السمک والجراد (مدارک) ھذہ الایۃ فلھا التخصیص بقولہ (علیہ السلام) احلت لنا میتتا الحوت والجراد اخرجہ الدارقطنی (قرطبی) فقیہ مفسرین نے اسی سلسلہ میں اس مسئلہ کو بھی بیان کردیا ہے کہ جن غذاؤں میں ذبیحہ کا سوال نہ پیدا ہو، وہ مجوس اور مشرکوں اور سب غیر کتابیوں کے ہاں کی بھی جائز ہیں۔ وقال ابوعمر ولا باس بالکل طعام عبدۃ الاوثان والمجوس وسائر من لا کتاب لہ من الکفار مالم یکن من ذبائحھم (قرطبی) (آیت) ” والدم “ یعنی خون جاری یا سیال۔ المراد بالدم الجاری (معالم) یعنی السائل (مدارک) اور سورة انعام میں دم مسفوح کی قید خود موجود ہے۔ اور فقہا کا متفقہ فیصلہ ہے کہ دم جو یہاں مطلق صورت میں ہے وہ اسی قید مسفوحیت کے ساتھ حرام ہے۔ وحمل العلماء ھھنا المطلق علی المقید اجماعا (ابن العربی) اس پر فقہاء امت کا اجماع ہے کہ خون جاری حرام بھی ہے اور نجس بھی۔ نہ اس کا کھانا جائز ہے نہ اس سے اور کوئی نفع اٹھانا جائز ہے۔ اتفق العلماء علی ان الدم حرام نجس لا یوکل ولا ینتفع بہ (ابن العربی) حدیث صحیح کی رو سے دو منجمد خون حلال ہیں، ایک جگر، دوسرے تلی، اور ان کی حلت پر فقہائے امت کا اجماع ہے۔ احلت لنادمان الکبد والطحال اخرجہ الدار قطنی (قرطبی) گوعلماء نے یہ بھی کہا ہے کہ جگر وطحال خون کی تعریف میں آتے ہی کب ہیں۔ وہ تو گوشت کی قسم کی چیزیں ہیں، نہ کہ خون کی قسم کی، اور اس تخصیص و استثناء کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ والصحیح انہ لم یخصص وان الکبد والطحال لحم یشھد بذلک العیان الذی لایعارضہ بیان ولا یفتقرالی برھان (ابن العربی) (آیت) ” ولحم الخنزیر “ قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ حرمت لحم خنزیر کی آئی ہے لیکن فقہاء امت کا اجماع ہے کہ سؤر کا صرف گوشت ہی نہیں، بلکہ اس کی چربی، ہڈی، کھال، بال سب ہی حرام ہیں، اور لحم کی تصریح تو اس لیے ہے کہ گوشت ہی ہر جانور کے جسم کا اہم ترین حصہ ہوتا ہے اور جب گوشت کہہ دیا تو اس کے تحت وتاتعیت میں جانور کے دوسرے اجزاء بھی آگئے، یعنی الخنزیر بجمیع اجزاۂ وخص اللحم لانہ المقصود بالکل (مدارک) اتفقت الامۃ علی ان الخنزیر حرام بجمیع اجزاۂ (ابن العربی) بعض مبتدع فرقوں کے اس قول کے جواب میں کہ گوشت کی حرمت سے چربی کی حرمت کہاں لازم آتی ہے۔ فقیہ ابن العربی مالکی کہتے ہیں، کہ یہ اعتراض اہل عجم کی طرف سے ہوا ہے جو یہی نہیں جانتے کہ لفظ لحم میں شحم شامل ہے، البتہ شحم میں لحم شامل نہیں جس طرح ہر حمد شکر ہے، لیکن ہر شکر حمد نہیں۔ وھم اعاجم لا یعلمون انہ من قال لحما فقد قال شحما ومن قال شحما فلم یقل لحما ان کل شحم لحم ولیس کل لحم شحم (ابن العربی) رہی اس کے جسم کی نجاست، تو جمہور فقہاء اس کے بھی قائل ہیں۔ قال الجمھور العلماء انہ نجس (ابن العربی) البتہ امام مالک (رح) کا اصول چونکہ یہ ہے کہ زندگی خود دلیل طہارت ہے، اور ہر زندہ جانور پاک ہے، اس لیے وہ سؤر کی نجاست کے بھی قائل نہیں۔ قال مالک انہ طاھر وکذلک کل حیوان عندہ لان علۃ الطھارۃ عندہھی الحیاۃ (ابن العربی) سؤر کا اور سارا جسم تو ناپاک ہوتا ہی ہے، البتہ اس کے بالوں سے نفع اٹھانے کی گنجائش ہے۔ چناچہ ایک حدیث میں اس کا جواز مذکور ہے۔ لاخلاف ان جملۃ الخنزیر محرمۃ الا الشعرفانہ یجوز الخرازۃ بہ وقدروی ان رجلا روسول اللہ ﷺ عن الخرازۃ بشعر الخنزیر فقال لا باس بذلک (قرطبی) امام ابوحنیفہ (رح) ومحمد (رح) واوزاعی (رح) سؤر کے بالوں سے انتفاع کے جواز کے قائل ہیں، اور امام شافعی (رح) عدم جواز کے، اور امام ابو یوسف (رح) سے جواز وکراہت دونوں کی روایتیں منقول ہیں۔ وقد اختلف الفقھاء فی جواز الانتفاع بشعر الخنزیر فقال ابوحنیفۃ ومحمد یجوز الانتفاع بہ للحر وقال الشافعی لایجوز الانتفاع بشعر الخنزیر (جصاص) فقہی احکام اور شرعی حرمت سے قطع نظر، خنزیر ہے ہی ایسی نجس چیز کہ خود فطرت سلیم اسے گندہ سمجھتی ہے اور نظافت طبع کو اس کی جانب رغبت کرنے سے کراہت آتی ہے۔ یہاں تک کہ لفظ خنزیر بھی عربی فیلالوجی (لسانیات) کے بعض ماہروں کا خیال ہے کہ قذر الشئی ( ” وہ چیز گندی ہوگئی “ ) سے بنا ہے۔ انگریزی زبان میں بھی جتنے نام اس جانور کے مثلا Hog, Swine, Pig, یا اس جانور کے گوشت کے لیے ہیں۔ مثلا Ham, Pork, Bacon ہیں وہ بھی سب کے سب دلالت ثانوی گندگی وغلاظت پر کرتے ہیں۔ اور اس کے گوشت کے جو طبعی نقصانات ہیں، خصوصا امراض غدودی میں یہ جس طرح معین ہوتا ہے، اس پر تو آج کل کے ڈاکٹر بھی بہت کچھ لکھ چکے ہیں، سؤر کی گندگی اور ناپاکی اتنی روشن وعیاں ہے کہ بعض پرانی قومیں مثلا اہل مصر بھی اسے نجس سمجھتی رہی ہیں، بلکہ خود یہود کے ہاں بھی یہ حرام تھا، آج ” مسیحی “ قومیں جس ذوق وشوق سے یہ گندہ گوشت، تازہ اور خشک دونوں صورتوں میں کھایا کرتی ہیں، اور اس کی چربی سے جو طرح طرح کے کام لیتی رہتی ہیں، بلکہ اس کی نسل کی پرورش کا انتظام جس بڑے پیمانہ پر جابجا کیے ہوئے ہیں، اسے دیکھ کر تو قیاس یہی ہوتا ہے کہ کراہت کیسی، عجب نہیں کہ کچھ فضائل اس جانور کے، مسیحیت میں وارد ہوئے ہوں ! حالانکہ اس کی حرمت اور نجاست دونوں، صراحت کے ساتھ بائبل میں موجود ہیں :۔ ” اور سؤر کہ کھر اس کا دو حصہ ہوتا ہے اور اس کا پاؤں چرا ہے، پر وہ جگالی نہیں کرتا وہ بھی تمہارے لیے ناپاک ہے “ (احبار 1 1:7) اور سؤر بھی کہ اس کے کھر چرے ہوئے ہیں۔ یہ جگالی نہیں کرتا، اور یہی تمہارے لیے ناپاک ہے۔ تم اس کا گوشت نہ کھائیوں، نہ اس کی لاش کو ہاتھ لگائیو۔ “ (استثناء۔ 12:8) (آیت) ” وما اھل بہ لغیر اللہ “۔ اھلال کے اصلی معنی آواز بلند کرنے، پکار کردینے، شہرت دے دینے کے ہیں۔ ھو رفع الصوت عنہ رؤیۃ الھلال ثم ویستعمل لکل صوت (راغب) الا ھلال رفع الصوت (قرطبی) مراد یہ ہے کہ جس جانور کو بہ طریق تعظیم و عبادت یا بہ قصد تقرب کسی مخلوق کے لیے نامزد کردیا جائے، اور نیت کسی مخلوق کی نذرونیاز یا بھینٹ کی کرلی جائے، وہ حرام ہوجاتا ہے، خواہ اس کے ذبح کے وقت بسم اللہ بھی کیوں نہ پڑھ لی جائے۔ شیخ سدو کے نام کے بکرے اور اس قبیل کی تمام چیزیں اسی حکم کے تحت میں آجاتی ہیں۔ ولا خلاف بین المسلمین ان المراد بہ الذبیحۃ اذا اھل بھالغیر اللہ عندالذبح (جصاص) ” در حدیث صحیح وارداست کہ ملعون من ذبح لغیر اللہ۔ یعنی ہر کہ بہ ذبح جانور تقرب غیر خدا نماید ملعون است خواہ دردقت ذبح نام خدا گیرد زیرا کہ چوں شہرت داد کہ ایں جانور برائے فلانے سے ذکر نام خدا وقت ذبح فائدہ نہ کرو، “ (تفسیر فتح العزیز) جس جانور کو غیر اللہ کے نامزد اس نیت سے کیا ہو کہ وہ ہم سے خوش ہوں گے اور ہماری کاروائی کرائیں گے جیسا کہ اکثر عام جاہلوں کی عادت ہوتی ہے کہ اس نیت سے بکرا، مرغا وغیرہ مقرر کردیتے ہیں، وہ حرام ہوجاتا ہے۔ اگرچہ ذبح کے وقت اس پر اللہ کا نام لیا ہو، البتہ اگر اس طرح نامزد کرنے کے بعد اس سے توبہ کرلے پھر حلال ہوجاتا ہے۔ “ (تھانوی (رح)) بعض فقہاء نے یہاں تک لکھا ہے کہ اگر کسی حاکم یا سردار کے آنے پر بہ طور بھینٹ کے ذبح کرے گا، تو بھی وہ حرام ہوجائے گا۔ اگرچہ اس پر اللہ کا نام لے لیا گیا ہو۔ ذبح القدوم الامیر ونحوہ کو احد من العظماء یحرم لانہ اھل بہ لغیر اللہ ولو اصلیۃ ذکر اسم اللہ تعالیٰ (درمختار) بلکہ فقہاء نے تو یہ بھی کہہ دیا ہے کہ کوئی مسلمان اگر جانور کو تقرب غیر اللہ کے قصد سے ذبح کرے گا، تو مرتد ہوجائے گا، اور اس کا ذبیحہ مرتد کا ذبیحہ سمجھا جائے گا۔ قال العلماء لوان مسلما ذبح ذبیحۃ وقصد بذبحھا التقرب الی غیر اللہ صار مرتدا وذبیحتہ ذبیحۃ مرتد (کبیر)
616 ۔ یعنی مجبور ہو کر حرام غذا کے استعمال پر۔ اے فمن اضطرا الی شیء من ھذا المحرمات اے احوج الیھا (قرطبی) اضطر اضطرارا۔ ضرورت سے مشتق ہے، اور اس کے باب افتعال سے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ شدید ضرورت کے وقت ان حرام غذاؤں کو بھی بہ قدرت کفایت کھایا جاسکتا ہے۔ شدید ضرورت کی صورتیں دو ہوسکتی ہیں :۔ ( 1) یہ کہ بھوک کی شدت سے معلوم ہوتا ہو کہ دم نکلا جارہا ہے۔ اور حلال غذا سرے سے دستیاب ہی نہیں ہورہی ہے۔ یا افلاس کی بنا پر اس تک دسترس نہ ہو اور یا پھر کسی مرض کی بنا پر وہ حلال غذا ناقابل استعمال ہو۔ (2) یہ کہ کوئی حاکم اس حرام غذا کے استعمال پر مجبور کررہاہو۔ وھذہ الضرورۃ لھا سببان احدھما الجوع الشدید والثانی اذا اکرھہ علی تناول مکرہ (کبیر) الاضطرار لایخلوان یکون باکراہ من ظالم اور بجوع فی مخمصۃ والذی علیہ الجمھور من الفقھاء والعلماء فی معنی الایۃ ھومن صیرہ العدم والغرث وھو الجوع الی ذلک (قرطبی)
617 ۔ (ان حرام چیزوں کے کھالینے میں) بلکہ اکثر تو ایسے موقع پر نہ کھانا گناہ ہے۔ بل ربما یا ثم بترک التناول (روح) اس لیے کہ حفظ نفس تو اولین فرائض میں سے ہے، اور ایسے موقع پر غذا نہ کھانا خود کشی کے مترادف ہے، جو حرام خوری سے شدید تر ہے۔ ولا خلاف انہ لایجوز لہ قتل نفسہ بالامساک عن الاکل وانہ مامور بالاکل علی وجہ ولوجوب (قرطبی) لوترک الاکل تلف نفسہ وتلک اکبر المعاصی (قرطبی) وقال الطبری لیس الاکل عند الضرورۃ رخصۃ بل ذلک عزیمۃ واجبۃ ولوامتنع من الاکل کان عاصیا (بحر) وقال مسروق بلغنی انہ من اضطرالی المیتۃ فلم یا کل حتی مات دخل النار کانہ اشار الی انہ قاتل نفسہ بترکہ ما اباح اللہ لہ (بحر) (آیت) ” غیرباغ “ یعنی اس کی نیت اور ارادہ نافرمانی اور قانون شکنی کا نہ ہو۔ اور وہ محض طالب لذت نہ ہو، ضرورت واقعی ہو، یہ ہرگز نہ ہو کہ کسی شخص کے دل میں قانون الہی کا احترام ہی ہلکا ہو یا وہ حرام چیزوں سے لذت ہی حاصل کرنا چاہتا ہو۔ (آیت) ” باغ “ کے معنی دوہوسکتے ہیں۔ ایک، دوسرے پر ظلم کرنے والا، دوسرے طالب لذت۔ (آیت) ” ولاعاد “ اور نہ حدود شرعی سے تجاوز کرنے والا۔ یعنی مقدار میں بھی بس محض بہ قدر ضرورت کھائے، یہ نہ ہو کہ خوب سیر ہو کر کھانے لگے۔ قال الشافعی وابو حنیفۃ و اصحابہ لایاکل المضطر من المیتۃ الا قدر مایمسک رمقہ (کبیر)
618 ۔ (آیت) ” غفور “ ایسا مغفرت والا کہ بعض حالات میں جرائم پر بھی مؤخذہ نہیں کرتا بلکہ انہیں جرائم باقی بھی نہیں رہنے دیتا۔ (آیت) ” رحیم “ ایسا شفقت والا کہ تنگی کے موقعوں پر آسانی بہم پہنچا دیتا ہے۔