Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 169
اِنَّمَا یَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْٓءِ وَ الْفَحْشَآءِ وَ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
اِنَّمَا : صرف يَاْمُرُكُمْ : تمہیں حکم دیتا ہے بِالسُّوْٓءِ : برائی وَالْفَحْشَآءِ : اور بےحیائی وَاَنْ : اور یہ کہ تَقُوْلُوْا : تم کہو عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
وہ تو تمہیں بس برائی اور گندگی ہی کا حکم دیتا ہے،605 ۔ اور اس کا کہ تم اللہ پر ایسی باتیں گڑھ لو جس کا تم علم نہیں رکھتے ہو،606 ۔
605 ۔ (آیت) ” انما “ کلمہ حصر کا ہے، اس کے صاف معنی یہ ہوئے کہ شیطان سے ہمیشہ شیطنت ہی کا ظہور ہوگا۔ کسی نیکی کے صدور کا اس سے امکان ہی نہیں۔ دلت الایۃ علی ان الشیطان لا یامر الا بالقبائح لانہ تعالیٰ ذکرہ بکلمۃ انما وھی للحصیر (الکبیر) سوء وفحشاء دو لفظ متقارب المعنی ہیں، لیکن متحد المعنی نہیں۔ سوء تو وہ چیز ہے جو عقلا بھی ناپسندیدہ ہو۔ اور فحشاء وہ ہے جسے شریعت نے برا ٹھیرایا ہے۔ السوء والفحشاء ماانکرہ العقل واستقبحہ الشرع والعطف لاختلاف الوصفین (بیضاوی) یہ فرق بھی کیا گیا ہے کہ سوء میں کوئی حد شرعی مقرر نہیں اور فحشاء میں حد شرعی معین ہوتی ہے۔ اور یہ معنی ابن عباس سے منسوب ہیں۔ السوء مالا حد فیہ والفحشاء ما فیہ حد حکی عن ابن عباس وغیرہ (قرطبی) 606 ۔ یعنی اپنی طرف سے نکالی ہوئی چیزوں کو احکام خداوندی کی طرح سمجھنے لگو۔ (آیت) ” تقولوا علی اللہ “ قول کا صلہ جب علی کے ساتھ آتا ہے تو اس کے معنی ہوتے ہیں کسی کے خلاف گڑھ لینا، کسی پر بہتان لگانا۔ (آیت) ” تعلمون “ علم سے یہاں مراد علم یقینی یا علم ثابت بالوحی ہے۔ پس اس وعید کے تحت میں صرف کفر ہی کے نہیں، بلکہ بدعت کے اقوال بھی داخل ہوجاتے ہیں۔ فیدخل فی کل کافر وکل مبدع ایضا (ابن کثیر) ویدخل فیہ کل ما یضاف الی اللہ تعالیٰ ممالا یجوز علیہ (مدارک)
Top