Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 156
الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ
الَّذِيْنَ : وہ جو اِذَآ : جب اَصَابَتْهُمْ : پہنچے انہیں مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت قَالُوْٓا : وہ کہیں اِنَّا لِلّٰهِ : ہم اللہ کے لیے وَاِنَّآ : اور ہم اِلَيْهِ : اس کی طرف رٰجِعُوْنَ : لوٹنے والے
کہ جب ان پر کوئی مصیبت آپڑتی ہے تو وہ کہتے ہیں،570 ۔ کہ بیشک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور بیشک ہم اسی کی طرف واپس ہونے والے ہیں،571 ۔
570 ۔ (حضور قلب کے ساتھ) تحصیل صبر میں عقیدہ قلب، تلفظ زبانی پر مقدم ہے۔ (آیت) ” مصیبۃ “ کے لغوی معنی افتاد کے ہیں۔ اور حدیث میں اس کی حقیقت بیان کی گئی ہے کل شیء سام ال مومن فھو مصیۂ (جو شے بھی مسلمان کو ناگوار گزرے بس وہی اس کے حق میں مصیبت ہے) گویا اس کا اطلاق نہایت وسیع اور عام ہے، اور اس کے تحت میں چھوٹا بڑا ہر ناخوشگوار واقعہ تکوینی آگیا۔ بیماری ہو، مالی نقصان ہو، دوستوں عزیزوں کی مفارقت کا صدمہ ہو، موت کا غم ہو، لاولدی ہو، توہین اور بےعزتی ہو، وقس علی ھذا۔ المصیبۃ کل ما اذی ال مومن فی نفس اومال اواھل صغرت اوکبرت (بحر) ۔ زبان سے اس آیت کی تلاوت کا دستور بحمد اللہ اب بھی اکثر مسلمان گھروں میں پایا جاتا ہے۔ لیکن صبر کے لیے محض زبانی اعادہ ہرگز کافی نہیں۔ قلب کے سامنے بھی استحضار پوری طرح ہونا چاہیے، الاستر جاع تسلیم واذعان (مدارک) ولیس الصبر باالاسترجاع باللسان بل بہ وبالقلب (بیضاوی) (آیت) ” قالوا “ صورۃ صیغہ ماضی کا ہے۔ لیکن مقصود مومنین صابرین کی عادت کا بیان ہے۔ اذا بیان کسی ایک اور اتفاقی واقعہ کے لیے نہیں۔ عام عادت کے اظہار کے لیے آیا ہے۔ یعنی جب جب، یا جب کبھی بھی کوئی ناخوشگواری پیش آتی ہے۔ والمعنی فی اذا ھنا علی التکرار والعموم (بحر) 571 ۔ (خواہ آج خواہ چند روز بعد) آیت کے اندر تعلیم تین چیزوں کی ملی۔ ایک یہ کہ ہم سب عبد محض ہیں، اور تمامتر اسی کی ملک۔ ہم خود بھی اور ہماری ہر چیز بھی۔ اپنی کوئی شے ہی نہیں، نہ بیوی نہ بچے، نہ مال نہ جائیداد، نہ وطن نہ خاندان، نہ جسم نہ جان ! ع : جو کچھ ہے سب خدا کا، وہم و گمان ہمارا ! (اکبر (رح)) انسان کے سارے رنج وغم، درد و حسرت کی بنیاد صرف اس قدر ہوتی ہے کہ وہ اپنی محبوب چیزوں کو اپنی سمجھتا ہے۔ لیکن جب ذہن اس عام مغالطہ سے خالی ہوگیا، اور کوئی سی بھی شے ہو، سرے سے اپنی رہی ہی نہیں تو اب گلہ و شکوہ، رنج وملال کا موقع ہی کیا ؟ دوسری بات یہ کہ بڑے بڑے رنج اور صدمے اور دل کے داغ بھی عارضی اور فانی ہیں، رہ جانے والے کوئی بھی نہیں، عنقریب انہیں چھوڑ چھاڑ مالک کی خدمت میں حاضری دینا ہے۔ تیسرے یہ کہ وہاں پہنچتے ہی سارے قرضے بیباق ہوجائیں گے۔ ہر کھوئی ہوئی چیز وصول ہو کر رہے گی، یہ تینوں عقیدے جس کے جتنے زیادہ مضبوط ہوں گے اسی قدر اس کے دل کو دنیا میں امن و سکون حاصل رہے گا، غم وحزن کے بار کو ہلکا کرنے کا جو عارفانہ اور تیربہدف نسخہ یہاں بتادیا گیا ہے، یہ صحائف کا ئنات میں بےنظیر ہے۔ بلکہ حق یہ ہے کہ قرآن مجید میں اگر صرف یہی ایک آیت ہوتی تو یہی اسے حکیم مطلق کا کلام ثابت کرنے کے لیے واللہ کافی تھی، صبر ایک کیفیت نفسی کا نام ہے۔ اور اصلا اس کا تعلق قلب سے ہے۔ ؛ زبان سے کلمہ صبر دوہرانے کا حکم اسی کیفیت کو قوی اور مؤکد بنانے کے لیے ہے، محققین کہتے ہیں کہ آیت میں جو حکم ہے اس کی تعمیل کے تین مرتبے ہیں ( 1) درجہ اعلی۔ دل میں آیت کے معنی منقش ہوں، اور زبان پر بھی اس کے الفاظ جاری ہوں ، (2) درجہ اوسط۔ دل میں معنی کا خیال کرلے، اور زبان سے ادا نہ کرے ، (3) درجہ ادنی۔ دل میں استحضار نہ ہو مگر زبان سے دہرا دے۔ چوتھی ممکن صورت یہ ہے کہ دل میں اعتقاد کسی درجہ میں بھی موجود نہ ہو محض زبان سے دہرادے۔ اس مقام کا نام منافقت ہے، اور یہ ایمان والوں کی دنیا سے خارج ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی بابت تاریخ کا بیان ہے کہ آپ ﷺ ادنی ادنی تکلیف یا ناگواری کے موقع پر بھی یہ کلمہ زبان پر لاتے رہتے تھے اور یہی معمول آپ ﷺ کے صحابیوں کا رہا ہے۔ (آیت) ” رجعون “ سے یہ مراد نہیں کہ انسان ابھی کہیں اور ہے، اور پھر کسی ایسے مقام یا جہت میں آجائے گا جہاں خدا ہے۔ خدا کے پاس تو وہ اب بھی ہے۔ مراد یہ ہے کہ عالم آخرت میں جس طرح اللہ کی ملکیت و ربوبیت اور سارے ظاہری اسباب کے ٹوٹ جانے سے بالکل واضح ونمایاں ہوجائے گی، اسی طرح یہ خدا ہی کی طرف رجوع بالکل آشکار ہو کر رہے گا، درمیانی واسطے سب غائب ہو کر رہیں گے۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ یہ کلمہ استرجاع تمام مصیبتوں کا علاج ہے اور انہی میں قبض بھی داخل ہے۔ ، جو سالکوں کو اکثر پیش آتا رہتا ہے۔
Top