Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 13
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ كَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَهَآءُ١ؕ اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَآءُ وَ لٰكِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ
وَإِذَا : اور جب قِيلَ : کہاجاتا ہے لَهُمْ : انہیں آمِنُوا : تم ایمان لاؤ کَمَا : جیسے آمَنَ : ایمان لائے النَّاسُ : لوگ قَالُوا : وہ کہتے ہیں أَنُؤْمِنُ : کیا ہم ایمان لائیں کَمَا : جیسے آمَنَ السُّفَهَاءُ : ایمان لائے بیوقوف أَلَا إِنَّهُمْ : سن رکھو خود وہ هُمُ السُّفَهَاءُ : وہی بیوقوف ہیں وَلَٰكِنْ لَا يَعْلَمُونَ : لیکن وہ جانتے نہیں
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لے آؤ جیسا کہ لوگ ایمان لائے ہیں33 تو کہتے ہیں34 کہ کہا ہم (ایسا) ایمان لے آئیں جیسا کہ بیوقوف ایمان لائے ہیں ؟35 سن رکھو کہ بیوقوف تو خود یہی لوگ ہیں اور اس کبھی علم نہیں رکھتے36 ۔
33 ۔ (اسلام اور رسول اللہ ﷺ پر صدق واخلاص کے ساتھ) دعوی ایمان کا تو اب بھی ان لوگوں کو تھا۔ سمجھانے والوں کا مطلب یہ تھا کہ ایمان دل سے لاؤ۔ دیانت اور راستی کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی رسالت کو تسلیم کرو۔ اے ایمانا مقرونا بالاخلاص بعیدا عن النفاق (کبیر) اخلصوا فی ایمانکم (خازن) (آیت) ” الناس “ ناس، ال کے داخلہ کے بعد معرفہ ہوگیا۔ اب مراد ساری نوع انسان نہ رہی، بلکہ وہ متعین ومخصوص افراد رہ گئے جو مخاطبین کے لیے معلوم ومعروف تھے۔ روایتوں میں عبداللہ بن سلام وغیرہ حق شناس یہود کے نام آئے ہیں۔ ، جنہوں نے اسلام کی صداقت کو قبول کرلیا تھا۔ ھم بعض الناس لاجمیعھم (ابن جریر) کما صدق المھاجرون والمحققون من اھل یثرب (قرطبی) ھم ناس معھودون کعبداللہ بن سلام واشیاعہ (کشاف) یہ بھی جائز ہے کہ (آیت) ” الناس “ کو انسان کامل کے معنی میں لیا جائے۔ اور اس صورت میں مراد ہوگی کہ ایمان ان کی طرح لاؤ جو صفت انسانیت میں کامل ہیں۔ اور واقعی انسان کہلانے کے مستحق ہیں۔ الکاملون فی الانسانیۃ (کشاف) واللام فی الناس للجنس والمرادبہ الکاملون فی الانسانیۃ (بیضاوی) اس سے اشارہ یہ نکلا کہ جو منکرین ہیں وہ صورۃ انسان ہیں لیکن حقیقۃ اپنی نافہمی کے لحاظ سے چوپائے ہیں۔ ومن عداھم کالبھائم فی فقد التمییزبین الحق والباطل (کشاف) 34 (اس کے جواب میں اور اپنی صفائی میں) 35 ۔ یہ طنز ہے اس وقت کے پکے اور سچے مسلمانوں پر، رسول اللہ ﷺ کے صحابیوں پر۔ یعنون اصحاب النبی ﷺ (ابن جریر، عن ابن عباس وابن مسعود ؓ یہی سنت آج تک چلی آرہی ہے ” ترقی پسندوں “ ” روشن خیالوں “ اور ” اہل تجدد “ کے دربار سے آج بھی جمود پسند، رجعت پسند، تاریک خیال وغیرہ کیسے کیسے خطابات خالص ومخلص اہل ایمان کو عطا ہوتے رہتے ہیں ! 36 ۔ کیا ٹھکانا ہے ان کے حمق اور نافہمی کا ؟ پہلے افساد کو اصلاح کہہ رہے تھے۔ اب حمق بالائے حمق یہ ہے کہ عقل، دور اندیشی، حکمت کو بےعقلی ٹھہرا رہے ہیں ! سفیہ کہتے ہیں اس کم عقل کو جسے اپنے نفع ونقصان کی پوری تمیز نہ ہو۔ السفیہ الجاہل ضعیف الرأی القلیل المعرفۃ بمواضع المنافع والمضار (ابن جریر) ۔
Top