Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 130
وَ مَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْرٰهٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٗ١ؕ وَ لَقَدِ اصْطَفَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَا١ۚ وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ
وَمَنْ : اور کون يَرْغَبُ : منہ موڑے عَنْ مِلَّةِ : دین سے اِبْرَاهِيمَ : ابراہیم اِلَّا مَنْ : سوائے اس کے سَفِهَ : بیوقوف بنایا نَفْسَهُ : اپنے آپ کو وَ لَقَدِ : اور بیشک اصْطَفَيْنَاهُ : ہم نے اس کو چن لیا فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَاِنَّهُ : اور بیشک فِي الْآخِرَةِ : آخرت میں لَمِنَ : سے الصَّالِحِينَ : نیکو کار
اور ابراہیم (علیہ السلام) کے مذہب سے کون پھرے گا مگر وہی جس نے اپنے کو احمق بنالیا ہو،469 ۔ اور ہم نے تو انہیں دنیا میں بھی برگزیدہ کرلیا تھا،470 ۔ اور آخرت میں بھی وہ زمرۂ صالحیں میں ہوں گے،471 ۔
469 ۔ یعنی ملت ابراہیمی تو عین دین فطرت ہے، اس کی تعلیمات عین طبع سلیم کی ترجمان ہیں۔ اس سے کنارہ کشی تو صرف وہی اختیار کرسکتا ہے جس کی فطرت ہی سلیم نہ باقی رہی ہو۔ بلکہ مسخ ہوچکی ہو۔ اس مقدمہ کی تصدیق انسان جب چاہے اعتقاد سے نہیں، آزمائش سے کرلے، اسلام نے جماعت (سوسائٹی) کا جو نظام قائم کیا ہے، وہی بہترین نظام اجتماعی ہے۔ ہر فرد کے لیے جو ضابطہ عمل بنا دیا وہی بہترین ضابطہ شخصی ہے۔ عقل وجذبات، فرد وجماعت، دل و دماغ جسم وروح، حریت وطاعت، حیات بشری کے متضاد ومتناقض عنصروں کی جتنی باہمی رعایت شریعت اسلام نے ملحوظ رکھی ہے، دنیا کے کسی قانون میں کہیں اس کی نظیر نہ ملے گی، دعائے ابراہیمی ختم ہوئی، اب بیان ملت ابراہیمی کا شروع ہورہا ہے۔ کہ یہ تو وہی دین توحید ہے جس کی دعوت آج اسلام ہی دے رہا ہے اور جسے تم سب باوجود اپنے مشترک بزرگ ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کے دعوی کے چھوڑے بیٹھے ہو۔ (آیت) ” ملۃ ابراھم “ قرآن مجدی نے عجب بلاغت ونکتہ سنجی سے کام لے کر یہاں اپنے دین اسلام کی نسبت نہ حق تعالیٰ کی جانب کی نہ رسول وقت حضرت محمد ﷺ کی جانب، بلکہ صرف ابراہیم (علیہ السلام) خلیل کی جانب کی۔ یہاں مخاطب اصلا یہود ونصاری اور مشرکین عرب ہیں اور یہ تینوں قومیں مسلمانوں ہی کی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا مقدس پیشوا مانتی تھیں۔ اس اسلوب بیان کو اختیار کرکے گویا یہ کہا جارہا ہے کہ قرآن تمہیں کسی نئے دین کی دعوت نہیں د یتا۔ عین تمہارے ہی برزگ ومحترم پیشوا ابراہیم (علیہ السلام) ہی کے دین کی جانب تمہیں بلا رہا ہے ! تلطف اور حسن تبلیغ کا پیرایہ اس سے بہتر اور کیا ہوسکتا تھا ؟ مشرکین عرب کے پاس آسمانی کتاب کی قسم سے کوئی کتاب تو نام کے لیے بھی موجود نہ تھی، البتہ یہودونصاری کے نوشتوں میں ابراہیم (علیہ السلام) کے فضائل اس وقت بھی درج تھے اور آج تک لکھے چلے آتے ہیں توریت مروجہ میں ہے :۔ اپنے باپ ابراہام پر اور سرہ پر جو تمہیں جنی نگاہ کرو کہ جب میں نے اسے بلایا وہ اکیلا تھا پھر اس کو برکت دی اور اس کو بہت بنایا “۔ (یسعیاہ۔ 5 1:2) ” اے ابراہام تو مت ڈر۔ میں تیری سپر اور تیرا بہت بڑا اجر ہوں “۔ (پیدائش 15: 1) ” اور وہ خدا پر ایمان لایا اور یہ اس کے لیے صداقت محسوب ہوا “۔ (پیدائش 15:6) اور مسیحیوں کی انجیل مروجہ میں ہے :۔ ” ابراہیم خدا پر ایمان لایا، اور یہ اس کے لئے راستبازی گنا گیا، بس جان لو کہ جو ایمان والے ہیں وہی ابراہیم کے فرزند ہیں “۔ (گلتیون۔ 3:6) نیز (رومیون۔ 4:3) 470 ۔ (ان کی اسی توحید پر ستی اور ایمان باللہ کے صلہ میں ہر قسم کی نعمتوں اور سرفرازیوں کے لیے۔ یہاں تک کہ منصب نبوت و رسالت کے لیے) ایک مسیحی مورخ ریونڈر ولیم ڈین ایم، اے نے ایک مستقل سیرت ابراہیم انگریزی میں لکھی ہے، اس سے آپ (علیہ السلام) کے دنیوی عروج واقبال پر بھی خوب روشنی پڑتی ہے۔ ان ” روشن خیال “ لامذہبوں کی تردید کے لیے یہی کافی ہے جنہوں نے ابھی انیسویں صدی کے آخر میں آپ کے وجود کو فرضی قرار دیا تھا۔ 471 ۔ (ایک پیغمبر جلیل القدر کے شایان شان) یہودونصاری نے اہل کتاب ہونے اور نبوت وسلسلہ وحی پر ایمان رکھنے کے باوجود اپنے اپنے نوشتوں میں کوئی کسر عصمت انبیاء کے داغدار بنانے میں اٹھا نہیں رکھی۔ اس لیے قرآن مجید جہاں جہاں انبیاء سابق کا ذکر کرتا ہے اکثر ان حضرات کی اخلاقی وروحانی عظمت پر بھی زور دیتا ہے اور اس طرح انبیاء برحق کی نصرت وحمایت کا فرض، توریت وانجیل کی عائد کی ہوئی فرد جرم کے مقابلہ میں ادا کرتا جاتا ہے۔ یہ عجیب و غریب اہل کتاب، نبی اور نبوت کے قائل گویا ان کے صرف لفظی معنی میں تھے، یعنی نبی وہ ہے جو کاہنوں جوتشیوں کی طرح غیب کی خبریں دے سکے۔ اور اس سے انہیں کوئی بحث ہی نہ تھی کہ اس کے اخلاق کا کیا عالم تھا۔ اس کے روحانی کمالات کس درجہ کے تھے، اس کی تعلیمات کیا تھیں، وقس علی ہذا۔ ابراہیم خلیل (علیہ السلام) تو اکثر انبیاء کے ابو الآباء ہیں۔ آپ (علیہ السلام) کی عصمت کے تحفظ کا تو قرآن نے اور زیادہ اہتمام رکھا ہے۔
Top