Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 108
اَمْ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَسْئَلُوْا رَسُوْلَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوْسٰى مِنْ قَبْلُ١ؕ وَ مَنْ یَّتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ
اَمْ تُرِیْدُوْنَ : کیا تم چاہتے ہو اَنْ تَسْاَلُوْا : کہ سوال کرو رَسُوْلَكُمْ : اپنا رسول کَمَا : جیسے سُئِلَ : سوال کئے گئے مُوْسٰى : موسیٰ مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے وَمَنْ : اور جو يَتَبَدَّلِ : اختیار کرلے الْكُفْرَ : کفر بِالْاِیْمَانِ : ایمان کے بدلے فَقَدْ ضَلَّ : سو وہ بھٹک گیا سَوَآءَ : سیدھا السَّبِیْلِ : راستہ
تم تو شاید یہ چاہتے ہو کہ اپنے رسول سے سوال کرڈالو،384 ۔ جیسا کہ (اس کے) قبل موسیٰ (علیہ السلام) سے سوال کئے جاچکے،385 ۔ اور جو کوئی ایمان کے بدلہ میں کفر اختیار کرلے گا،386 ۔ سو وہ یقیناً سیدھی راہ سے بھٹک گیا
384 ۔ (از راہ عناد واعتراض) مخاطب یہاں غالب یہود ہیں۔ نزلت فی الیھود (معالم) اور قول بھی نقل ہوئے ہیں لیکن ترجیح اسی قول کو ہے۔ اختلفوا فی المخاطب بہ علی وجوہ احدھا انہم المسلمون والقول الثانی انہ خطاب لاھل مکۃ والقول الثالث المراد الیھود وھذا القول اصح (کبیر) ورجح انھم الیھود (بحر) (آیت) ” رسولکم “ سے مراد اس صورت میں رسول وقت سے ہوگی۔ تمہارے زمانہ کے رسول سے لیکن مسلمان ہی اگر مخاطب سمجھے جائیں تو یہ بھی تہدیدا جائز ہوگا۔ ام یہاں ہمزہ کا مرادف اور سوالیہ نہیں منقطعہ ہے۔ بل کا مرادف ام اے بل (جلالین) ام منقطعۃ التقدیر بل تریدون (مدارک) ام ھھنا منقطعۃ والتقدیر بل تریدون (عسکری) فیھا الاضراب والانتقال عن حملھم علی العمل بموجب علمھم (ابوسعود) 385 ۔ سوال اگر کسی مسئلہ کسی سنجیدہ تحقیق ودریافت کے لیے ہوں تو باعث رحمت ہیں۔ لیکن جب ضد اور نفسانیت اور شرارت سے ہوں اور اعتراض محض اعتراض کی غرض سے ہو تو وہی سوالات ایک لعنت بن جاتے ہیں۔ حضرت موسیٰ سے جیسے جیسے گستاخانہ سوالات اور بہیودہ فرمائشوں کی بھر مار بنی اسرائیل کرتے رہے، ان کے تذکرہ سے تاریخ اسرائیل اور خودبائبل کے صفحات لبریز ہیں، قرآن کا اس کو اتنی کھلی ہوئی تلمیح کے طور پر آنا بجائے خود اس کی دلیل ہے کہ قرآن بھیجنے والا اس سے خوب واقف تھا۔ اور یہ کلام عرب کے ایک ان پڑھ انسان کی تصنیف ہو نہیں سکتا۔ 386 ۔ (جس کی ایک شکل یہی رسول سے معاندانہ اور گستاخانہ سوال و جواب ہے) یبدل الکفر بالایمان کے معنی ہی یہ ہیں کہ ایمان کے بدلہ اور مقابلہ میں راہ کفر کو اختیار کیا۔ (آیت) ’ ’ من یتبدل الکفر “ اے یختارہ ویاخذہ لنفسہ “ (ابوسعود) بالایمان اے بمقابلتہ بدلامنہ (ابو سعود) سیاق میں ذکر یہود کا ہے اس لیے انہیں کے ایک نبی کے صحیفہ کا اقتباس بےمحل نہ ہوگا۔” سنواے آسمانو ! اور کان لگا اے زمین کے خداوند یوں فرماتا ہے کہ لڑکوں کو میں نے پالا پوسا پھر انہوں نے مجھ سے سرکشی کی۔ بیل اپنے مالک کو پہچانتا ہے اور گدھا اپنے صاحب کی چرنی کو۔ بنی اسرائیل نہیں جانتے میرے لوگ کچھ نہیں سوچتے۔ آہ خطا کار گروہ، ایک قوم جو گناہ سے لدی ہوئی ہے، بدکاروں کی نسل خراب اولاد کہ انہوں نے خداوند کو ترک کیا۔ اسرائیل کے خدا ہی کو حقیر جانا، اس سے بالکل پھرگئے “ (یسعیاہ 1:3 ۔ 4)
Top