Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 95
قُلْ لَّوْ كَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓئِكَةٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْهِمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَكًا رَّسُوْلًا
قُلْ : کہ دیں لَّوْ كَانَ : اگر ہوتے فِي الْاَرْضِ : زمین میں مَلٰٓئِكَةٌ : فرشتے يَّمْشُوْنَ : چلتے پھرتے مُطْمَئِنِّيْنَ : اطمینان سے رہتے لَنَزَّلْنَا : ہم ضرور اتارتے عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنَ السَّمَآءِ : آسمان سے مَلَكًا : فرشتہ رَّسُوْلًا : اتارتے
آپ کہہ دیجیے کہ اگر زمین پر فرشتہ ہوتے کہ چلتے بستے،136۔ تو البتہ ہم ان پر آسمان سے کسی فرشتہ کو بہ طور رسول کے اتارتے،137۔
136۔ یعنی اس زمین کے باشندے ہوتے جیسے کہ انسان ہیں۔ فرشتہ موجود تو زمین پر آج بھی ہیں۔ مقصود کلام یہ ہے کہ انسانوں کے بجائے اگر دنیا انہیں ہی سے اسی طور پر آباد ہوتی اور انہیں بھی ہدایت کے لئے کسی پیغمبر کی ضرورت ہوتی۔ 137۔ (کہ وہ اپنے ہم جنسوں میں تبلیغ کرتا) یہیں سے یہ ایک اہم اصل ہاتھ آتی ہے کہ ہدایت کے لئے مناسبت باہمی شرط ہے، اور مناسبت کا سبب قوی مجانست ہے۔ ایک جنس کی مخلوق دوسری جنس والی سے بآسانی نہیں سیکھ سکتی۔
Top