Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 62
قَالَ اَرَءَیْتَكَ هٰذَا الَّذِیْ كَرَّمْتَ عَلَیَّ١٘ لَئِنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَاَحْتَنِكَنَّ ذُرِّیَّتَهٗۤ اِلَّا قَلِیْلًا
قَالَ : اس نے کہا اَرَءَيْتَكَ : بھلا تو دیکھ هٰذَا : یہ الَّذِيْ : وہ جسے كَرَّمْتَ : تونے عزت دی عَلَيَّ : مجھ پر لَئِنْ : البتہ اگر اَخَّرْتَنِ : تو مجھے ڈھیل دے اِلٰى : تک يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت لَاَحْتَنِكَنَّ : جڑ سے اکھاڑ دوں گا ضرور ذُرِّيَّتَهٗٓ : اس کی اولاد اِلَّا : سوائے قَلِيْلًا : چند ایک
(اور) وہ بولا بھلا دیکھ تو یہ شخص جس کو تو نے مجھ پر فوقیت دے رکھی ہے اگر تو نے مجھے مہلت دے دی روز قیامت تک تو میں اس کی (ساری) اولاد کو اپنے بس میں کرلوں گا بجز ایک قدرے قلیل (گروہ کے) ،93۔
93۔ (اور وہ گروہ مومنین مخلصین کا ہے) یہ ساری گفتگو اس وقت کی ہے، جب ابلیس نافرمانی کی پاداش میں مردود ومطر ود ہوچکا ہے۔ اسی لئے اس کے آغاز میں یہ جتانے کو کہ یہ مستقل کلام ہے لفظ قال الگ آیا ہے۔ حالانکہ اوپر سے بھی قول ابلیس ہی کا چلاآرہا ہے۔ (آیت) ” لئن اخرتن الی یوم القیمۃ “۔ ابلیس اس کی درخواست کرچکا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ درخواست منظور ہوجائے گی، (آیت) ” لاحتنکن۔۔ قلیلا “۔ انسان کی جسمانی ساخت اور دماغی ترکیب پر نظر کر کے شیطان اپنی فراست سے ابتداہی میں سمجھ گیا تھا کہ میں اپنی کوشش اغوا واضلال میں کامیاب ہوجاوں گا۔ (آیت) ” لاحتنکن “۔ حنک کے معنی پوری طرح چھا جانے اور چھاپ بیٹھنے کے ہیں۔ عبارۃ عن الاخذ بالکلیۃ (کبیر) تفسیر احتواء استیلاء یعنی اپنے ڈھب میں کرلینے ان کے اوپر چھا جانے سے آتی ہے۔ اور اہلاک واستیصال سے بھی نقل ہوئی ہے۔ اے لاستولین (ابن جریر۔ عن ابن عباس ؓ اے لاحتوینھم (ابن جریر۔ عن مجاہد) لاستاصلنھم بالاغواء (کبیر)
Top