Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 60
وَ اِذْ قُلْنَا لَكَ اِنَّ رَبَّكَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ١ؕ وَ مَا جَعَلْنَا الرُّءْیَا الَّتِیْۤ اَرَیْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِی الْقُرْاٰنِ١ؕ وَ نُخَوِّفُهُمْ١ۙ فَمَا یَزِیْدُهُمْ اِلَّا طُغْیَانًا كَبِیْرًا۠   ۧ
وَاِذْ : اور جب قُلْنَا : ہم نے کہا لَكَ : تم سے اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب اَحَاطَ : احاطہ کیے ہوئے بِالنَّاسِ : لوگوں کو وَمَا جَعَلْنَا : اور ہم نے نہیں کیا الرُّءْيَا : نمائش الَّتِيْٓ : وہ جو کہ اَرَيْنٰكَ : ہم نے تمہیں دکھائی اِلَّا : مگر فِتْنَةً : آزمائش لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَالشَّجَرَةَ : ور (تھوہر) کا درخت الْمَلْعُوْنَةَ : جس پر لعنت کی گئی فِي الْقُرْاٰنِ : قرآن میں وَنُخَوِّفُهُمْ : اور ہم ڈراتے ہیں انہیں فَمَا يَزِيْدُهُمْ : تو نہیں بڑھتی انہیں اِلَّا : مگر (صرف) طُغْيَانًا : سرکشی كَبِيْرًا : بڑی
اور (وہ وقت یاد کیجیے) جب ہم نے آپ سے کہا تھا کہ آپ کے پروردگار نے تمام لوگوں کو گھیر کر رکھا ہے،88۔ اور ہم نے جو منظر آپ کو دکھلایا تھا اسے ہم نے لوگوں کی آزمائش کا سبب بنادیا،89۔ اور اس درخت کو بھی جس پر قرآن میں لعنت آئی ہے،90۔ اور ہم لوگوں کو ڈراتے تو رہتے ہیں لیکن ان کی بڑی سرکشی بڑھتی ہی چلی جاتی ہے،91۔
88۔ (اپنے احاطہ علم سے) حق تعالیٰ کی احاطت علمی اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ ہے۔ خدائے اسلام مشرکوں کے خدا کی طرح محدود علم والا نہیں۔ اسے بندوں کے سارے حالات کا علم ہے ان کے حال کا بھی، استقبال کا بھی۔ اے علما کما رواہ غیر واحد عن ابن عباس ؓ (روح) 89۔ اشارہ اس واقعہ اسراء یا معراج کی جانب ہے، جس کا ذکر سورة کے بالکل شروع میں آچکا ہے۔ یعنی وہ عجائب قدرت جو ہم نے آپ کو شباشب کے سفر بیت المقدس میں دکھا دیئے تھے۔ وھی مارای فی لیلۃ الاسراء من العجائب (بحر) المراد بھا ما اراہ اللہ تعالیٰ لیلۃ الاسراء وھو قول اکثر المفسرین (کبیر) المراد بالرؤیا ما عانیہ ﷺ لیلۃ اسری بی من العجائب السماویۃ والارضیۃ کما اخرجہ البخاری والترمذی والنسائی وجماعۃ عن ابن عباس ؓ (روح) (آیت) ” الرء یا “۔ رؤیا کے عام معنی تو خواب ہی کے ہیں۔ الرؤیا ما یری فی المنام (راغب) والمشھور اختصاصھا لفۃ بالمنامیۃ وبذلک تمسک من زعم ان الاسراء کان مناما (روح) الرویا مارایتہ فی منامک (قاموس۔ لسان) لیکن رویت مطلق بھی اس سے مراد ہوسکتی ہے۔ جس کے تحت میں چشم بیداری کے منظر بھی آجاتے ہیں اور جمہور کے خیال میں وہی یہاں مراد ہیں۔ وھی عند کثیر بمعنی الرویۃ مطلقا (روح) قال الجمھورھی رؤیا عین ویقظۃ (بحر) (آیت) ” فتنۃ للناس “۔ یعنی کسی نے تصدیق کیا، اور کسی نے خارق عادت جان کر تکذیب کی ، 90۔ یعنی شجر زقوم جو دوزخ میں ہوگا۔ قرآن میں اس کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے۔ ان شجرۃ الزقوم طعام الاثیم، طلعھا کانہ رء وس الشیاطین۔ روی عن ابن عباس والحسن والسدی وابراھیم و سعید بن جبیر و مجاھد وقتادۃ والضحاک انہ اراد شجرۃ الزقوم (جصاص) والمراد بھا کما روی البخاری وخلق کثیر عن ابن عباس شجرۃ الزقوم (روح) (آیت) ” الملعونۃ “۔ لعنت سے مراد ہے مذمت، العرب تقول لکل طعام مکروہ ضارانہ ملعون (کبیر) یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملعون سے مراد اس کا ثمر ملعون ہے یا وہ معلون کافر ہیں جو اس پھل کو کھائیں گے۔ (آیت) ” فاراد انہ ملعون اکلھا (جصاص) المراد لعن الکفار الذین یاکلونھا (کبیر) والمراد یلعنھا لعن طاعمھا من الکفرۃ (روح) 91۔ چناچہ 2 محمدی کی پہلی صدی کے بڑے روشن خیال ابوجہل نے (ٹھیک آج کے ” روشن خیالوں “ کے انداز میں) شجر زقوم کا ذکر سن کر تمسخر و استہزاء کے لہجہ میں کہا تھا کہ آگ کے شعلوں کے درمیان کوئی درخت رہ کیسے سکتا ہے ؟۔ گویا عالم آخرت اور جہنم کے قوانین طبعی بھی بالکل عالم ناسوت کے قوانین کی نقل ہوں گے ! (آیت) ’ ونخوفھم “۔ یعنی انہیں آیات و احکام قرآنی کے ذریعہ سے ہم ڈراتے رہتے ہیں۔
Top