Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 44
تُسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّبْعُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْهِنَّ١ؕ وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَ لٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا
تُسَبِّحُ : پاکیزگی بیان کرتے ہیں لَهُ : اس کی السَّمٰوٰتُ : آسمان (جمع) السَّبْعُ : سات وَالْاَرْضُ : اور زمین وَمَنْ : اور جو فِيْهِنَّ : ان میں وَاِنْ : اور نہیں مِّنْ شَيْءٍ : کوئی چیز اِلَّا : مگر يُسَبِّحُ : پاکیزگی بیان کرتی ہے بِحَمْدِهٖ : اس کی حمد کے ساتھ وَلٰكِنْ : اور لیکن لَّا تَفْقَهُوْنَ : تم نہیں سمجھتے تَسْبِيْحَهُمْ : ان کی تسبیح اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے حَلِيْمًا : بردبار غَفُوْرًا : بخشنے والا
اسی کی پاکی بیان کرتے ہیں ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی بھی ان میں موجود ہیں اور کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو حمد کے ساتھ اس کی پاکی نہ بیان کرتی ہو البتہ تم ہی ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ہو،63۔ بیشک وہ بڑا حلم والا ہے بڑا مغفرت والا ہے،64۔
63۔ (اے مشرکو ! ) (آیت) ” ومن فیھن “۔ انسان، جنات، حیوان فرشتہ وغیرہ ساری ہی مخلوق اس میں آگئی۔ (آیت) ” تسبح۔ یسبح “۔ ہر ایک مخلوق اپنے خالق کی قدوسیت کا اعلان اپنے مرتبہ وجود کے متناسب ومطابق برابر کرتی رہتی ہے۔ خواہ زبان سے ہو یا زبان حال سے۔ موجودات عالم کا ذرہ ذرہ اپنے حدوث، وامکان کی بنا پر صانع مطلق کے نہ صرف وجوب وجود کی بلکہ یکتائی، صناعی قدرت کی بھی شہادت علانیہ دے رہا ہے۔ محققین عارفین نے تصریح کی ہے ( اور یہی بات دل کو بھی لگتی ہے) کہ آیت میں لفظ تسبیح اپنے عموم کے ساتھ تسبیح قالی اور حقیقی اور تسبیح حالی اور حکمی اندھا کرلیا ہے تو تمہاری سمجھ میں یہ دلالت حالی بھی نہیں آتی جو ہر مخلوق ہر وقت اپنے خالق وصناع عالم کی قدوسیت و توحید کے ثبوت میں پیش کررہی ہے ! ان الکفار ما کانوا یتفکرون فی انواع الدلائل (کبیر) 64۔ (اس لئے اگر اب بھی توبہ کرلو تو اس کی صفت غفراب بھی سارے قصور معاف کردے گی) اس کی اسی صفت حلم کا اثر ہے کہ مشرکانہ عقاید و اعمال پر فورا گرفت نہیں ہوتی بلکہ برابر مہلت ملتی رہتی ہے۔
Top