Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 42
قُلْ لَّوْ كَانَ مَعَهٗۤ اٰلِهَةٌ كَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰى ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلًا
قُلْ : کہ دیں آپ لَّوْ كَانَ : اگر ہوتے مَعَهٗٓ : اسکے ساتھ اٰلِهَةٌ : اور معبود كَمَا : جیسے يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں اِذًا : اس صورت میں لَّابْتَغَوْا : وہ ضرور ڈھونڈتے اِلٰى : طرف ذِي الْعَرْشِ : عرش والے سَبِيْلًا : کوئی راستہ
آپ کہہ دیجیے کہ اگر اس (معبود برحق) کے ساتھ اور بھی خدا ہوتے جیسا کہ یہ (مشرکین) کہتے ہیں تو اس وقت تک انہوں نے عرش والے تک راستہ ڈھونڈ لیا ہوتا،61۔
61۔ (اور نوبت مقابلہ ومقاتلہ کی آگئی ہوتی، جس سے نظام عالم کب کا درہم برہم ہوچکا ہوتا ! آیت میں رد ان مذاہب جاہلی کا ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ ٰایک خدائے اعظم ہے جو عرش پر سریر آرا ہے۔ اور باقی اور دیوتا بھی بہت سے ہیں، ان کے جواب میں ارشاد ہورہا ہے کہ جب کوئی اور بھی خدا ہے تو ہونے کی حیثیت سے اس کے لئے مستقلا صاحب قوت، صاحب ارادہ، خود مختار ہونا لازم ٹھہرا تو جب دو یا زاید خدا ہوئے تو ان میں ایک دوسرے کے مقابلہ میں قوت واختیار کا استعمال اور باہمی جدال و قتال لازم ٹھہرا (جیسا کہ جاہلی مذہبوں کی روایتوں میں کثرت سے آیا بھی ہے) پھر اس جدال و قتال کے بعد یہ نظم کائنات کیونکر برقرار رہ سکتا تھا ؟
Top