Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 36
وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُوْلًا
وَلَا تَقْفُ : اور پیچھے نہ پڑ تو مَا لَيْسَ : جس کا نہیں لَكَ : تیرے لیے۔ تجھے بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : علم اِنَّ : بیشک السَّمْعَ : کان وَالْبَصَرَ : اور آنکھ وَالْفُؤَادَ : اور دل كُلُّ : ہر ایک اُولٰٓئِكَ : یہ كَانَ : ہے عَنْهُ : اس سے مَسْئُوْلًا : پرسش کیا جانے والا
اور اس چیز کے پیچھے مت ہولیا کر جس کی بابت تجھے علم (صحیح) نہ ہو بیشک کان اور آنکھ اور دل ان کی پوچھ ہر شخص سے ہوگی،55۔
55۔ (قیامت کے دن) یعنی ہر ہر شخص سے سوالاس کا ہوگا کہ کان سے سننے کا، آنکھ سے دیکھنے کا، دل سے سوچنے سمجھنے یقین کرنے کا کام جائز اور صحیح موقعوں پر کتنا لیا، اور ناجائز اور غلط موقعوں پر کتنا ! احساس ذمہ داری کی تعلیم ہر ہر فرد کو اس سے بہتر اور کہاں ملے گی ؟ اس پر آج عمل ہونے لگے تو شخصی اور قومی، انفرادی واجتماعی دونوں قسم کے کتنے جھگڑے قصے آج دنیا سے مٹ جائیں ! (آیت) ” ولا تقف مالیس لک بہ علم “۔ یعنی بلاتحقیق ہر سنی سنائی بات کے پیچھے نہ ہولیا کرو البتہ مختلف مسائل کی تحقیق کے درجہ مختلف ہوتے ہیں اور ہر مسئلہ کے متناسب فقہاء اصولیین نے کہا ہے کہ قطعیات میں دلائل بھی قطعی ہونے چاہئیں اور ظنیات میں ظنی۔ فقہاء نے اسی آیت کے ذیل میں یہ بھی کہا ہے کہ احکام شرعی محض اٹکل سے بتا دینا یا کسی پر بغیر تحقیق کوئی الزام لگا دینا دونوں اس آیت سے ناجائز ٹھہرتے ہیں۔ وقد اقتضی ذلک نھی الانسان عن ان یقول فی احکام اللہ ما لا علم بہ علی جھۃ الظن والحسیات وان لایقول فی الناس من السوء مالا یعلم صحتہ (جصاص)
Top