Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 24
وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ
وَاخْفِضْ : اور جھکا دے لَهُمَا : ان دونوں کے لیے جَنَاحَ : بازو الذُّلِّ : عاجزی مِنَ : سے الرَّحْمَةِ : مہربانی وَقُلْ : اور کہو رَّبِّ : اے میرے رب ارْحَمْهُمَا : ان دونوں پر رحم فرما كَمَا : جیسے رَبَّيٰنِيْ : انہوں نے میری پرورش کی صَغِيْرًا : بچپن
اور ان کے سامنے محبت سے انکسار کے ساتھ جھکے رہنا اور کہتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان پر رحمت فرما جیسا کہ انہوں ن ے مجھے بچپن میں پالا، پرورش کیا،36۔
36۔ خدمت والدین کے سلسلہ میں محض سلبی ہدایات یا نواہی کافی نہیں۔ ایجابی اوامر بھی مل رہے ہیں۔ (آیت) ” قل لھما قولا کریما “۔ تو ابھی آہی چکا ہے۔ اب دوہدایتیں اور ملیں۔ (آیت) ” واخفض لھما جناح الذل “۔ محاورۂ زبان کے اعتبار سے اس فقرہ سے والدین کے ساتھ انتہائی فروتنی اختیار کرنے کی تاکید نکل آئی۔ ھو مجاز لان الذل لیس لہ جناح ولا یوصف بذلک ولکنہ ارادالمبالغۃ فی التذلل والتواضع (جصاص) مبالغۃ فی التذلل والتواضع لھما (کشاف) والمقصود منہ المبالغۃ فی التواضع (کبیر) (آیت) ” قل۔۔۔ صغیرا “۔ یہاں کس حکمت کے ساتھ جوان تندرست وتنومند اولاد کو خود اس کے بچپن کی بےکسی وبے بسی یاد دلادی گئی۔ قدرۃ یہاں پہنچ کر ہر انسان کو یہ خیال آئے گا کہ ایک دن مجھے بھی اسی طرح ضعیف ومعذور ہو کر خود اپنی اولاد کا محتاج ودست نگر ہونا ہے۔ (آیت) ” قل رب ارحمھما “۔ والدین کے حق میں دعائے رحمت کرتے رہنے سے خود اپنے دل میں بھی ان کے متعلق جذبات محبت وکشش بیدار ہوجائیں گے یہ ایک نفسیاتی نکتہ ہے جب جس کا جی چاہے اس کا تجربہ کرکے دیکھ لے۔ اور پھر یہ دعا کرنا کہ ” اے پروردگار ان پر رحمت فرما “ گویا یہ دعا کرنا ہے کہ ” اے پروردگار انہیں دنیا وآخرت کی ہر قسم کی بھلائی سے بہرہ ور کر، کہ لفظ رحمۃ عرب میں جامعیت ہی ایسی رکھتا ہے۔ ولفظ الرحمۃ جامع لکل الخیرات فی الدین والدنیا (کبیر عن القفال) (آیت) ” کما ربینی صغیرا “۔ اس سے ضمنا یہ بات بھی نکل آئی کہ معاشرت اسلامی میں بچوں کی پرورش والدین ہی کا حق ہے (اور ہر صالح تمدن میں یہی ہوتابھی ہے) نہ کہ حکومت کا یا کسی اور ادارہ کا۔ ملاحظہ ہو انگریزی تفسیر القرآن کا حاشیہ۔
Top