Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 102
قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَاۤ اَنْزَلَ هٰۤؤُلَآءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ بَصَآئِرَ١ۚ وَ اِنِّیْ لَاَظُنُّكَ یٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا
قَالَ : اس نے کہا لَقَدْ عَلِمْتَ : البتہ تونے جان لیا مَآ اَنْزَلَ : نہیں نازل کیا هٰٓؤُلَآءِ : اس کو اِلَّا : مگر رَبُّ : پروردگار السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین بَصَآئِرَ : (جمع) بصیرت وَاِنِّىْ : اور بیشک میں لَاَظُنُّكَ : تجھ پر گمان کرتا ہوں يٰفِرْعَوْنُ : اے فرعون مَثْبُوْرًا : ہلاک شدہ
انہوں نے کہا تو خوب جانتا ہے کہ یہ عجائب بس آسمانوں اور زمین کے پروردگار ہی نے بھیجے ہیں اور میں تجھے اے فرعون ہلاکت زدہ سمجھتا ہوں،148۔
148۔ یعنی تیری ہلاکت کا وقت آپہنچا۔ اب اس میں زیادہ دیر نہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ جواب قول فرعون (آیت) ” انی لاظنک یموسی مسحورا “۔ عین مقابل ہے۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ جواب ترکی بہ ترکی۔ ، جب کہ تسامح ورعایت میں کوئی مصلحت نہ ہو، کرم اور کمال اخلاق کے منافی نہیں۔ (آیت) ” قال لقد علمت “۔ یعنی اے فرعون تیرا یہ انکار دانستہ اور عمدا ہے۔ تو کسی غلط فہمی کا شکار نہیں۔ دل میں تو خوب میری صداقت کو سمجھ گیا ہے۔ انکار زبان ہی کئے چلی جارہی ہے۔ بائبل کے بیانات سے بھی قرآن ہی کی تائید ہوتی ہے۔ (آیت) ” رب السموت والارض “۔ حق تعالیٰ کا نام فرعون کے سامنے اسی حیثیت سے لینے میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ مصر میں اصلی حکومت جن دو بڑے دیوی دیوتاؤں کی تھی، ان میں سے ایک آسمان تھا دوسری زمین۔۔ ملاحظہ ہو انگریزی تفسیرالقرآن۔ (آیت) ” بصآئر “۔ یعنی وہ چیزیں جو نبوت موسوی کی تصدیق کررہی تھیں۔ اے علامۃ لنبوتی (ابن عباسؓ) (آیت) ” مآانزل۔۔ بصآئر “۔ یعنی یہ بات تو تجھ پر بھی خوب منکشف ہوچکی ہے کہ یہ عجائب وخوارق نہ میرے اپنے پیدا کئے ہوئے ہیں نہ کسی سحر کا نتیجہ ہیں نہ کسی دیوی دیوتا کی قوت کے نتائج ہیں۔ بلکہ تمامتر حق تعالیٰ ہی کے نازل کئے ہوئے معجزات میری نبوت کی تائید میں ہیں۔
Top