Tafseer-e-Majidi - Al-Hijr : 42
اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَكَ عَلَیْهِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغٰوِیْنَ
اِنَّ : بیشک عِبَادِيْ : میرے بندے لَيْسَ : نہیں لَكَ : تیرے لیے (تیرا) عَلَيْهِمْ : ان پر سُلْطٰنٌ : کوئی زور اِلَّا : مگر مَنِ : جو۔ جس اتَّبَعَكَ : تیری پیروی کی مِنَ : سے الْغٰوِيْنَ : بہکے ہوئے (گمراہ)
بیشک میرے بندوں پر تیرا ذرا بھی بس نہ چلے گا مگر ہاں بہکے ہوؤں میں سے جو بھی تیری پیروی کرنے لگیں،35۔
35۔ سو کوئی شخص گناہ پر مجبور ومضطر ہرگز نہیں۔ توفیق الہی ساتھ جب ہی چھوڑتی ہے، جب انسان خود شیطان کی جانب میل قوی رکھنے لگتا ہے۔ شیطان کا منتہائے قوت بس یہ ہے کہ دم دلاسا خوب دلا لیتا ہے، انسان کو فوری لذتوں کی چاٹ خوب دلا دیتا ہے، بس اس کے آگے کچھ بھی نہیں۔ فان منتھی تزیینہ التحریض والتدلیس (بیضاوی) ابلیس کے قول میں ابھی گزرا تھا کہ (آیت) ” الا عبادک منھم المخلصین “۔ حق تعالیٰ کے قول میں اب ارشاد ہورہا ہے (آیت) ” الا من اتبعک من الغوین “۔ مفسرین نے کلام کی اس ترتیب سے یہ نکتہ خوب نکالا ہے کہ جس کو جس چیز کا اہتمام ہوتا ہے وہ اسی کو مقدم رکھتا ہے چناچہ ابلیس نے اغواء کو مقدم رکھا اور حق تعالیٰ نے مخلصین کی حفاظت کو۔ امام رازی (رح) نے فرمایا ہے کہ شیطان نے اوپر جو دعوی کردیا ہے کہ میں لوگوں کو گمراہ کروں گا اور سبز باغ دکھاؤں گا تو اس سے یہ گمان پیدا ہوسکتا تھا کہ شیطان کو بھی کچھ قوت واقتدار حاصل ہے۔ آیت میں اسی غلط عقیدہ کی تردید ہے اور اعلان ہے کہ شیطان کا زور کسی بندہ پر بھی نہیں، خواہ وہ برگزیدہ ہو یا غیر برگزیدہ۔ ہاں البتہ جو بندہ خود ہی شیطان کی راہ چلنے لگے تو اسے اختیار ہے۔ غرض اس آیت سے حق تعالیٰ نے خود شیطان کی بھی ممکن غلط فہمی دور کردی ہے۔ الحاصل فی ھذا القول ان ابلیس اوھم ان لہ علی بعض عباد اللہ سلطانا فبین تعالیٰ کذبہ فیہ وذکر انہ لیس لہ علی احدمنھم سلطان ولا قدرۃ اصلا (کبیر)
Top