Tafseer-e-Majidi - Al-Hijr : 29
فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ
فَاِذَا : پھر جب سَوَّيْتُهٗ : میں اسے درست کرلوں وَنَفَخْتُ : اور پھونکوں فِيْهِ : اس میں مِنْ رُّوْحِيْ : اپنی روح سے فَقَعُوْا : تو گر پڑو تم لَهٗ : اس کے لیے سٰجِدِيْنَ : سجدہ کرتے ہوئے
سو جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدہ میں گرپڑنا،26۔
26۔ (اس کی تعظیم و تکریم کے لئے) (آیت) ” سویتہ “۔ میں ضمیر مذکر واحد غائب بشر کے اسی خاکی پتلے کی طرف ہے۔ (آیت) ” من روحی “۔ اللہ کا روح انسانی کی اضافت اپنی جانب کرنا، اس کے اظہار قدر ومنزلت کے لئے ہے۔ انما اضاف اللہ سبحانہ روح ادم الی نفسہ تشریفا لہ وتکریما (کبیر) اور اسی نفخ روح کا شاید نتیجہ ہے کہ روح انسانی میں خلافت الہی کی استعداد پیدا ہوگئی ہے۔ (آیت) ” نفخت “۔ مفسر تھانوی (رح) نے کہا ہے کہ روح انسانی اگر جسم لطیف ہو، جیسا کہ عموما متکلمین کا قول ہے، جب تو نفخ کے حقیقی ہی معنی مراد ہوں گے، یعنی جسم کے جن حصوں میں خلا ہو ان میں ہوا بھر نا۔ لیکن اسے غیر مادی جو ہر مجرد تسلیم کیا جائے، تو نفخ سے استعارہ مطلق تعلق کا ہوگا۔ (آیت) ” روحی “۔ روح کو ہمارے محققین میں سے اکثر نے جسم ہی تسلیم کیا ہے، گویا جسم لطیف ہے۔ الروح جسم لطیف یحی بہ الانسان (معالم) جمھور اھل السنۃ علی انھا جسم لطیف یخالف الاجسام بالماھیۃ والصفۃ متصرف فی البدن حال فیہ حلول الزیت فی الزیتون والی ذلک ذھب امام الحرمین (روح) لیکن بعض کی تحقیق میں (اور انہی میں حجۃ الاسلام امام غزالی (رح) بھی ہیں) روح ایک جوہر مجرد ہے جو نہ جسم میں داخل ہے نہ اس سے خارج، نہ اس کے متصل نہ اس سے منفصل۔ ھذا الروح عندہ وکذا عند جماعۃ من المحققین لیس بجسم یحل البدن حلول الماء فی الاناء دخلا ولا ھو عرض یحل القلب او الدماغ حلول السود فی الاسود والعلم فی العالم بل ھو جوھر مجرد لیس داخل البدن ولا خارجہ ولا متصلا بہ ولا منفصلا عنہ ولھم علی ذلک عدۃ ادلۃ (روح)
Top