9 اللہ اللہ کے لئے اسم ذات ہے۔ کسی اور ہستی پر اس کا اطلاق ہو ہی نہیں سکتا۔ فارسی کے خدا یا انگریزی کے گاڈ کی طرح اسم نکرہ نہیں کہ معبود واحد کے علاوہ دوسروں کے لئے بھی بولا جاسکے۔ اس کی نہ جمع آئی ہے، نہ یہ کسی لفظ سے مشتق ہے اور نہ اس کا ترجمہ کسی دوسری زبان میں ممکن ہے۔ علم للذات واجب الوجود المستجمع بجمیع صفات الکمال غیر مشتق (تاج) لم یسم بہ غیرہ تبارک وتعالی ولھذا الا یعرف فی الکلام العرب لہ اشتقاق من فعل یفعل (ابن کثیر) رحمن کا صحیح ترجمہ دشوار ہے۔ مصدر رحمۃ سے صیغہ مبالغہ ہے فعلان کے وزن پر، زیادتی صفت کے لیے۔ جس کے بعد زیادتی کا کوئی درجہ نہ ہو۔ معناہ عند اھل اللغۃ ذوالرحمۃ التی لا غایۃ بعدھا فی الرحمۃ (تاج) مبالغۃ فعلان مثل غضبان وسکران من حیث الاستیلاء والغلبۃ (بحر) اسم ذات ” اللہ “ کی طرح اسم صفت، رحمن کا اطلاق بھی صرف ذات باری ہی پر ہوتا ہے، ولایطلق الرحمن الا الرحمن الا علی اللہ تعالیٰ (راغب) اسم مغصص باللہ لا یجوزان یسمی بہ غیرہ (تاج) یہ بات اتفاقی نہیں بہت پر معنی ہے کہ قرآن مجید میں اسم ذات کے بعد جو سب سے پہلا اسم صفاتی ارشاد ہوا ہے وہ صف رحمانیت کا مظہر ہے۔ لین پول (Lane poolw) انگریز اسی لیے اپنے ہم قوموں کو سنا کر کہتا ہے کہ ” لوگ یہ بات برابر بھول جاتے ہیں کہ قرآن کے اندر وصف رحمت پر کتنا زور دیا گیا ہے “۔ رحیم بھی اسم صفت صیغہ مبالغہ ہے۔ فعیل کے وزن پر۔ تکرار وتواتر کے اظہار کے لیے۔ مبالغہ الفعیل من حیث التکرار (بحر) گویا صفت رحمت و شفقت کی انتہائی قوت کا اظہار رحمن سے ہورہا ہے اور انتہائی کثرت کا رحیم سے۔ اس فرق کے اظہار کے لئے رحمن کا ترجمہ ” نہایت رحم کرنے والے “ اور رحیم کا ترجمہ ” بار بار رحم کرنے والے “ سے کیا گیا ہے۔ رحمن میں شان کرم کا عموم ہے مومن و کافر سب کے لئے۔ اور اسی لیے اس کا ظہور اسی دنیا میں بھی ہورہا ہے۔ رحیم میں تجلی مرحمت مغفرت کا خصوص ہے اہل ایمان کے ساتھ۔ اس لئے اس کا پورا ظہور آخرت ہی میں ہوگا۔ اور اسی معنی میں یہ حدیث صحیح مسلم میں صحابی ابن مسعود ؓ کے واسطہ سے آئی ہے کہ الرحمن رحمن الدنیا والرحیم ورحیم الاخرۃ۔ اور اسی معنی میں جعفر صادق ؓ کا بھی یہ قول نقل ہوا ہے۔ الرحمن اسم خاص لصفۃ عامۃ والرحیم اسم عام لصفۃ الخاصۃ (تاج) صوفیانہ مذاق پر ایک تشریح یہ بھی کی گئی ہے کہ رحمانیت وہ تربیت ہے جو ذرائع ووسائط کے ساتھ ہو، اور رحمیت وہ تربیت ہے جو براہ راست وبلاواسطہ ہو۔ رحمانیت وہ شفقت ہے جو طبیب مریض کے ساتھ رکھتا ہے۔ اور رحیمیت شفقت محض ہے (روح) اسلام کے اس خالص توحیدی کلام کے مقابلہ میں اب مسیحیت کا فقرہ افتتاحیہ ملاحظہ ہو :
” شروع باپ بیٹے اور روح القدس کے نام سے “ کوئی نسبت اس شرک جلی کو اسلام کی توحید خالص سے ہے ؟ راقم آثم کے خیال میں یہ بات آتی ہے کہ عجب نہیں جو خالق اکبر کی یہی صفات رحمانیت ورحیمیت ہی مسخ ہو کر مسیحیت میں بیٹا اور روح القدس بن گئی ہوں۔10، الحمد میں ال کلمہ استغراق ہے۔ یعنی جمیع حمد۔ کوئی سی بھی ہو۔ ، کسی قسم کی بھی ہو، بہ ظاہر کسی کے لیے بھی ہو۔ حمد کا درجہ لغوی اعتبار سے، مدح اور شکر دونوں سے بلند تر ہے۔ شکر تو کسی متعین ہی نعمت کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے اور مدح میں ممدوح کی خوبیوں کا ارادی واختیاری ہونا ضروری نہیں۔ صرف حمد ہی ایسی چیز ہے، جو محمود کی عام اختیاری خوبیوں اور فضیلتوں کی بنا پر کی جاتی ہے (راغب) فی کلام العرب معناہ الثناء الکامل (قرطبی) گویا قرآن مجید کی سب سے پہلی تعلیم توحید کے جملہ اصناف کی جامع ہے۔ مدح اور تعریف کسی کی بھی ہو، کسی کے نام سے بھی ہو، درحقیقت صرف اللہ ہی کی ہوتی ہے۔ اور اسی کو پہنچتی ہے۔ الالف واللام فی الحمد لا ستغراق جمیع اجناس الحمد للہ تعالیٰ (ابن کثیر) اور یہی معنی ہیں اس حدیث نبوی کی بھی کہ، اللہم لک الحمد کلہ ولک الملک کلہ وبیدک الخیر کلہ والیک یرجع الامر کلہ۔ حاکم اگر عادل ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ نے صفت عدل اس کے اندر رکھ دی ہے۔ طبیب اگر حاذق ہے تو اس کی حقیقت صرف اس قدر ہے کہ اللہ نے اسے یہ کمال عطا کردیا ہے کسی کی شکل جمیل ہے اور کسی کی سیرت پاکیزہ ہے تو، ہر موقع پر مدح وثنا، تعریف و ستائش کی اصل مستحق صرف ذات باری تعالیٰ ہے۔ ہر جاکنیم سجدہ بآں آستان رسد !1 1 رب، جو یہاں بہ طور اسم استعمال ہوا ہے، مصدر ہے تربیت کے معنی میں۔ اور تربیت کے معنی ہیں کسی شے کو ایک حال سے دوسری حالت کی طرف نشوونما دیتے رہنا، تاآنکہ وہ حد کمال تک پہنچ جائے۔ ھوانشاء الشی حالا فحالا الی حد التمام (راغب) وھی تبلیغ الشیء الی کمالہ شیئا فشیئا (بیضاوی) الرب المصلح والمدبر والجابر والقائم یقال لمن قام باصلاح شئی واتمامہ (قرطبی) اردو میں اس کا ترجمہ پروردگار سے بھی صحیح ہے۔ لیکن قریب ترین لفظ اس مفہوم کے لیے ” مربی “ کا ہے، اور یہی مترجم تھانوی مدظلہ نے اختیار کیا ہے۔ عربی میں اس کا اطلاق مطلق اور بلااضافت صورت میں صرف حق تعالیٰ پر ہوتا ہے۔ ولا یقال الرب مطلقا الا اللہ تعالیٰ (راغب) ولا یستعمل الرب لغیر اللہ بل بالاضافۃ (ابن کثیر) صفات رحمانیت ورحیمیت کے معا بعد اب اللہ کی صفت ربوبیت کا اظہار ہے۔ مسیحیوں کے ” آسمانی باپ “ سے کہیں زیادہ شفقت، کہیں زیادہ قدرت، کہیں زیادہ حکمت لفظ رب سے عیاں ہے۔ عالمین عالم کا لفظ خود اسم جمع ہے کوئی اس کا واحد نہیں آتا۔ اور مرادف ہے خلقت یا موجودات کے۔ العالم الخلق کلہ (لسان) عالمون بہ صیغہ جمع کے معنی ہوئے ہر ہر صنف موجودات اور سارے سلسلہ کائنات کے۔ والعالمون اصناف الخلق (لسان) رب العلمین کا لفظ لا کر قرآن مجید نے گویا بتادیا کہ ہر صنف موجودات کا ایک مستقل نظام تربیت ہے۔ اور سب کا آخری سراسی قادر مطلق واحد ویکتا کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی بھی صنف موجودات اس کے ہمہ گیر نظام ربوبیت وتربیت سے آزادومشثنی نہیں۔ یہ تعلیم بھی اسی ایک لفظ سے مل گئی کہ اسلام کا خدا کسی مخصوص نسل، مخصوص قوم، مخصوص قبیلہ کا خدا نہیں۔ یہ حقیقت تاریخ مذاہب میں نہایت درجہ رکھتی ہے۔ اسلام سے قبل مذاہب جس صورت میں موجود تھے وہ اس وسیع تخیل ہی سے آشنا نہیں رہے تھے۔ ہر قوم خدا کو صرف اپنا خدا تسلیم کرتی تھی۔ گویا خدا کی حیثیت محض قومی خدا کی رہ گئی تھی۔ بابل، مصر ہند، یونان، رومہ، عرب وغیرہ کی مشرک قوموں کا ذکر نہیں، بنی اسرائیل جیسی موحد قوم بھی خدائے کائنات ہونے کی پوری طرح قائل نہیں رہی تھی۔ قرآن نے ایک لفظ رب العلمین لا کر ان سارے مشرکانہ وگمرہانہ عقائد کی تردیدکردی۔ مشرک قوموں کو سب سے زیادہ ٹھوکر صفت ربوبیت ہی کے سمجھنے میں لگی ہے۔ اسی لئے قرآن نے تصیح میں بھی اسی کو مقدم رکھا۔ علماء کے ایک گروہ نے کہا ہے کہ کلمہ الحمد للہ رب العلمین تمام کلموں سے افضل و اشرف ہے۔ یہاں تک کہ لا الہ الا اللہ سے بھی۔ اس لیے کہ اس میں صرف توحید ہے، اور اس میں توحید کے ساتھ حمد بھی (قرطبی)