بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mafhoom-ul-Quran - Nooh : 1
اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اِنَّآ : بیشک ہم نے اَرْسَلْنَا : بھیجا ہم نے نُوْحًا : نوح کو اِلٰى قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم کی طرف اَنْ اَنْذِرْ : کہ ڈراؤ قَوْمَكَ : اپنی قوم کو مِنْ : سے قَبْلِ : اس سے پہلے اَنْ يَّاْتِيَهُمْ : کہ آئے ان کے پاس عَذَابٌ اَلِيْمٌ : عذاب دردناک
ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا کہ بیشتر اس کے کہ ان پر درد دینے والا عذاب نازل ہو اپنی قوم کو ہدایت کر دو
سیدنانوح (علیہ السلام) کی تبلیغ کا مقصد تشریح :۔ جیسا کہ کئی مرتبہ ذکر ہوچکا ہے کہ سیدناآدم (علیہ السلام) سے لے کر نبی اکرم ﷺ تک جتنے بھی نبی انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے سب نے توحید ہی کی تعلیم دی کیونکہ توحید ہی ایسا عقیدہ ہے جو انسان کو ہر قسم کے شر و فساد اور شیطان کے قبضہ سے نکال کر امن و سکون اور اللہ کی راہ دکھاتا ہے۔ معمول کے مطابق توحید کی تعلیمات آہستہ آہستہ مٹتی گئیں اور بت پرستی بڑھتی گئی تب اللہ تعالیٰ نے سیدنانوح (علیہ السلام) کو ہدایت دینے کے لیے نبی بنا کر انکی قوم کی طرف بھیجا۔ سیدنانوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو تین باتوں کی تعلیم دی۔ پہلی اللہ کی بندگی دوسری تقویٰ اور تیسری رسول کی اطاعت۔ اور پھر خوب اچھی طرح بتا دیا کہ جو ہوچکا اس کے لیے اس زندگی میں معافی مانگ لو کیونکہ مرنے کے بعد یا قیامت کے وقت توبہ اور معافی کی گنجائش ختم ہوجائے گی۔ مگر وہ قوم جو مدتوں سے کفر وشکر میں ڈوب کر غیر انسانی زندگیاں گزار رہی تھی وہ بھلا نبی کی بات کو کیا اہمیت دیتی۔ سیدنانوح (علیہ السلام) نے ان کو ظاہر، پوشیدہ اور ہر قسم کے دلائل دے کر ہدایت پر چلنے کی تلقین کی پورے خلوص، محبت محنت اور جانفشانی سے دن رات ایک طویل عرصہ تک ان کو ایمان اور توحید کی طرف موڑنے کی کوشش کی مگر ان لوگوں پر ایک ذرہ برابر بھی اثر نہ ہوا اور نہ ہی وہ اپنی حرکتوں سے باز آئے۔ پھر انکو اللہ کی بیشمار نعمتوں کا لالچ دیا اور ان کی حیات کے معجزانہ انداز کے بارے میں بتایا کہ کس طرح تمہارا وجود اس دنیا میں آنے کے لیے تیار کیا گیا اور پھر کس خوش اسلوبی سے تم دنیا مـیں آتے ہو اور عمر کے مختلف مراحل طے کرتے ہو تو اس تمام کاریگری سے تم کو اپنے کاریگر کو پہچان لینا چاہیے اور پھر تمہیں یہ یقین کرنے میں بھی کوئی دقت نہ ہوگی کہ یہ کمال تو صرف خدائے واحد کا ہی ہوسکتا ہے اور کوئی یہ کمال نہیں دکھا سکتا۔ مگر قوم نوح نے تو گویا قسم کھا رکھی تھی ایمان نہ لانے کی، پھر ان کو کائناتی کمالات کی طرف توجہ دلائی۔
Top