Mafhoom-ul-Quran - As-Saff : 9
هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ۠   ۧ
هُوَ الَّذِيْٓ : وہ اللہ وہ ذات ہے اَرْسَلَ : جس نے بھیجا رَسُوْلَهٗ : اپنے رسول کو بِالْهُدٰى : ہدایت کے ساتھ وَدِيْنِ الْحَقِّ : اور دین حق کے ساتھ لِيُظْهِرَهٗ : تاکہ غالب کردے اس کو عَلَي : اوپر الدِّيْنِ كُلِّهٖ : دین کے سارے کے سارے اس کے وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ : اور اگرچہ ناپسند کریں مشرک
وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے اور سب دینوں پر غالب کرے، خواہ مشرکوں کو برا ہی لگے
غلبہ ٔ دین کی بشارت اور مومنوں کی تجارت تشریح : اصل میں یہ آیات 3 ھ؁ میں جنگ احد کے بعد نازل ہوئی تھیں۔ احد کی جنگ میں مسلمانوں کو خاصی پریشانی اٹھانا پڑی تھی اور یہ پریشانی اللہ کی طرف سے مسلمانوں کے کچھ غلط رویے اور سوچ کی وجہ سے سزا کے طور پر اٹھانی پڑی تھی۔ مگر اس عارضی پریشانی سے مسلمان ڈگمگا گئے تھے اور دشمن بڑا خوش اور دلیر ہوگیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے نہ صرف احد کے بعد کی کامیابیوں کا یقین دلایا بلکہ ہر دور ہر زمانے میں کامیابیوں اور اللہ کی خاص مدد کا یقین دلا دیا کہ سچے، پکے، متقی اور بہترین مسلمان کیوں کہ اللہ کا پسندیدہ انسان ہوتا ہے اس لیے فتح اس کو ضرور ملتی ہے۔ اور وعدہ اس وقت بھی پورا ہوا فتح مکہ اس کی ابتدا تھی جو جاری وساری رہی یہاں تک کہ پھر جب مسلمان عقیدہ و عمل اور کردار میں کمزور ہونے شروع ہوگئے۔ تو جیسے جیسے کمزور ہوتے گئے دین سے دور ہوتے گئے اللہ کی مدد سے بھی دور ہوتے گئے تو اللہ تعالیٰ اپنی مدد اور اسلام کی ہمیشہ کی بقاء کا وعدہ دہراتا ہے۔ اور اس طرح کی کھلی فتح کا ذکر پہلے بھی سورة توبہ اور سورة فتح میں آچکا ہے۔ یہاں پھر دہرایا جا رہا ہے۔ اور ان شرائط کے ساتھ کہ تم اگر اللہ پر ایمان لاؤ تو اس کے نتیجہ میں تم خودبخود دنیاوی آلائشوں، شیطان کی شرارتوں اور کفر کی نجاستوں سے پاک صاف ہوجاؤ گے اور جب تمہارے دل، دماغ، جسم اور روحیں اللہ کے نور سے منور ہوجائیں گے تو تمہیں کوئی اس بات سے روک نہ سکے گا کہ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دین کی بقا اور اپنی نجات اور اپنی حقیقی خوشی کے لیے اپنا سب کچھ بےدریغ اللہ کی راہ میں قربان کرنے اور خرچ کرنے پر خوشی سے تیار نہ ہوجاؤ گے۔ جب اس طرح معقولیت تمہارے اندر پیدا ہوجائے گی تو بھلا اللہ کس طرح تمہیں بےیارومددگار چھوڑ دے گا۔ ہرگز نہیں ! مگر اس سارے مسئلہ میں اس سپرٹ کا پیدا ہونا بےحد ضروری ہے جو ایک مسلمان کا طرئہ امتیاز ہے جو مسلم کو مشرک سے علیحدہ کرتا ہے شاعر نے کہا ہے۔ ، ہم تو مائل بہ کرم ہیں، کوئی سائل ہی نہیں اللہ نے ہم سے جنت کا وعدہ کیا ہے۔ بہترین کامیابیوں کا اور شاندار فتوحات کا وعدہ کیا ہے۔ مگر ان سب کے لیے ہمیں وہ تجارت ضرور کرنی ہوگی جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے آیت 9 سے یعنی، مومنو ! میں تمہیں ایسی تجارت بتاؤں آخر تک، اور پھر، مومنوں کو اس کی خوشخبری سنا دو ،۔ آیت 13 تک کا مضمون مسلمان کا اوڑھنا بچھونا ہونا چاہیے تو پھر ایک مسلمان سیدناعیسیٰ کے ان حواریوں یعنی، انصار اللہ، کا درجہ حاصل کرسکتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے دنیا میں فتح و کامیابی اور آخرت میں ہمیشہ رہنے کی جگہ جنت کا وعدہ کیا گیا ہے جو اب تک دنیا کے ہر دور میں سچا ثابت ہوچکا ہے اور آخرت کے بارے میں پورا قرآن اور بیشمار احادیث ہمارے مطالعہ میں ہیں۔ جن پر یقین کرنا ہمارے ایمان کی سلامتی کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ اس آخرت کی زندگی اور حساب و کتاب کے بعد بہترین جزا اور بدترین سزا پر یقین کرنا عقیدہ ایمان کا بڑا ضروری اور خاص جز ہے۔ آخر میں سیدناعیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں کی مثال بڑے خوبصورت انداز میں دیتا ہے۔ ہوا یوں کہ (تفاسیر میں ایسے ہی لکھا گیا ہے) جب عیسائی جو کہ آپ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے تھے جن کو حواری کہا گیا ہے، ان سے سیدناعیسیٰ نے پوچھا کہ، بھلا کون ہیں جو اللہ کی طرف بلانے میں میرے مددگار ہوں گے،۔ (14) تو انہوں نے جواب میں کہا، ہم اللہ کے مددگار ہیں،۔ (آیت 14) یہ بات چیت اس وقت ہوئی جب سیدناعیسیٰ (علیہ السلام) کو یقین ہوگیا تھا کہ اب ان کی قوم انہیں قتل کیے بغیر نہ چھوڑے گی تو اس نازک اور انتہائی خطرناک وقت میں جن لوگوں نے آپ (علیہ السلام) سے وفاداری اور دین کی سلامتی میں سب کچھ کر گزرنے کا وعدہ کیا تو وہ لوگ واقعی قابل تعریف اور قابل تقلید ہیں۔ کیونکہ انہوں نے دنیا کی ہر چیز سے بےنیاز ہو کر صرف اللہ و رسول کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے فوراً راہ خدا میں جدو جہد کرنے کا وعدہ کرلیا۔ مگر ان میں سے سب لوگ سیدناعیسیٰ کے پیروکار ثابت نہ ہوئے بلکہ بیشمار فرقے بن گئے۔ کچھ لوگ جو ایمان پر قائم رہے انہوں نے رسول کریم ﷺ پر ایمان قبول کیا مثلاً یہودی تو آپ ﷺ پر ایمان نہ لائے جب کہ عیسائی ایمان تو لے آئے مگر بہت سے فرقوں میں بٹ گئے۔ پھر بھی یہودیوں سے بہت درجہ کامیاب رہے جبکہ یہودیوں پر اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے لعنت بھیج رکھی ہے۔ ہم مسلمانوں کی نجات اسی میں ہے کہ ہم بھی سیدناعیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں کی طرح ہر چیز سے بےنیاز ہو کر اللہ کی راہ میں اٹھ کھڑے ہوں اور ہماری پوری زندگی اسی جدوجہد میں گزر جائے کہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنی ہے۔ دراصل ہماری زندگی مسلسل جہاد ہی ہے۔ کبھی شیطان کے خلاف، کبھی نفس کے خلاف اور کبھی دنیاوی عیش و نشاط کے خلاف۔ تو جہاد کے بارے میں باربارتاکید کی گئی ہے۔ سورۃ الحج :78 ۔ سورة توبہ :41 ۔ الفرقان : 52 ۔ النساء :95 ۔ العنکبوت :69 ۔ البقرۃ :193 ۔ النساء :74 - اسی طرح بیشمار احادیث جہاد کی فضیلت کے لیے موجود ہیں مثلاً رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ کہ، جنت میں سو درجے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے تیار کیا ہے جو اس کے لیے جہاد کرتے ہیں ان میں سے ہر دو درجے کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان ہے،۔ (بخاری، مسلم) مذہب اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے لیکن کیونکہ یہ تمام الہامی مذاہب پر فوقیت رکھتا ہے اور آخری مذہب ہے۔ اس لیے تمام عالم انسانی کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ کیونکہ باقی تمام مذاہب پر برتری اور غلبہ جہاد کے بغیر ممکن نہ تھا جو کہ انسانی زندگی میں قدم قدم پر اسے کرنا پڑتا ہے اس لیے رب العزت نے اپنی مقدس کتاب قرآن پاک میں جہاد کے تمام احکامات بڑی وضاحت سے بیان کیے ہیں۔ اور پھر ان تمام احکامات کی وضاحت اور تاکید رسول اللہ ﷺ نے اپنے فعل و قول سے فرمائی ہے۔ شاعر نے اس کو یوں بیان کیا ہے۔ تیرے در پہ جینا تیرے در پہ مرنا کوئی آرزو اس سے بڑھ کر نہیں ہے دعا ہے : مجھے اللہ کافی ہے، اسکے سوا معبود کوئی نہیں میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔ (سنن ابی داؤد) خلاصہ سورة الصف اس سورت میں یہود و نصاریٰ کا کردار پہلے تو یوں بیان کیا گیا کہ ان کے قول و فعل کے تضاد نے ان کو دنیا اور آخرت میں ذلیل و خوار کروا دیا۔ کیونکہ یہ عادت اللہ کو ہرگز پسند نہیں انسانی سوسائٹی کے لیے یہ بری عادت بڑی نقصان دہ بات ہے لہٰذا مسلمانوں کو اس بری عادت سے ہمیشہ بچ کر رہنا چاہیے۔ قرآن و حدیث میں اس کی بڑی سخت مذمت کی گئی ہے مسلمان قول کا سچا بات کا پکا اور عمل کا کھرا ہوتا ہے۔ جبکہ منافق نہ قول کا سچا ہوتا ہے نہ عہد کا پابند اور نہ ہی امانت دار ہوتا ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ عہد کی پابندی کرو، بیشک عہد کے بارے میں تم کو جواب دہی کرنی ہوگی۔ (بنی اسرائیل :34 ) یہود و نصاریٰ اور مسلمانوں کے بارے میں ایک حدیث ملاحظہ ہو۔ سیدناابن عباس ؓ فرماتے ہیں۔ جب اللہ کا ارادہ ہوا کہ سیدناعیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر چڑھالے۔ آپ نہا دھوکر اپنے اصحاب کے پاس آئے جو ایک گھر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آتے ہی فرمایا، تم میں وہ بھی ہیں جو مجھ پر ایمان لا چکے ہیں لیکن پھر میرے ساتھ کفر کریں گے اور ایک دو مرتبہ نہیں بلکہ بارہ دفعہ، پھر فرمایا کہ، تم میں سے کون اس بات پر آمادہ ہے کہ اس پر میری مشابہت ڈالی جائے اور وہ میرے بدلے قتل کیا جائے اور جنت میں میرے درجہ میں میرا ساتھی بنے،۔ ایک نوجوان جو عمر میں ان سب سے کم تھا اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے تئیں پیش کیا۔ تین دفعہ منع کرنے پر بھی وہ کہتا رہا۔ لہٰذا اس کی شکل سیدناعیسیٰ (علیہ السلام) جیسی ہوگئی۔ اور خود سیدناعیسیٰ (علیہ السلام) اسی گھر کے ایک روزن سے آسمان کی طرف اٹھا لیے گئے اب یہودیوں کی دوڑ آئی اور انہوں نے اس نوجوان کو گرفتار کر کے قتل کیا اور سولی پر چڑھا دیا۔ سیدناعیسیٰ (علیہ السلام) کی پیشنگوئی کے مطابق باقی کے گیارہ لوگوں میں سے بعض نے بارہ بارہ مرتبہ کفر کیا حالانکہ وہ اس سے پہلے ایماندار تھے۔ پھر بنی اسرائیل کے ماننے والے گروہ کے تین فرقے ہوگئے ایک فرقے نے تو کہا کہ، خود خدا ہمارے درمیان بصورت مسیح تھا جب تک چاہا رہا، پھر آسمان پر چڑھ گیا،۔ انہیں یعقوبیہ کہا جاتا ہے، ایک فرقے نے کہا، ہم میں خدا کا بیٹا تھا جب تک اللہ نے چاہا اسے ہم میں رکھا اور جب چاہا اپنی طرف چڑھا لیا،۔ انہیں نسطور یہ کہا جاتا ہے تیسری جماعت حق پر قائم رہی ان کا عقیدہ ہے کہ خدا کے بندے اور اس کے رسول سیدناعیسیٰ (علیہ السلام) ہم میں تھے جب تک خدا کی چاہت رہی آپ ہم میں موجود رہے پھر اللہ نے اپنی طرف اٹھا لیا، یہ جماعت مسلمانوں کی ہے پھر ان دونوں کافر جماعتوں کی طاقت بڑھ گئی اور انہوں نے مسلمانوں کو مار پیٹ کر قتل و غارت کرنا شروع کردیا اور مسلمان دبے بچے اور مغلوب ہی رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کو مبعوث فرمایا، پس بنی اسرائیل کی وہ مسلمان جماعت آپ پر بھی ایمان لائی اور ان کافر جماعتوں نے آپ سے بھی کفر کیا پس ان ایمان والوں کی اللہ تعالیٰ نے مدد کی اور انہیں ان کے دشمنوں پر غالب کردیا، رسول اللہ ﷺ کا غالب آجانا اور دین اسلام کا تمام ادیان کو مغلوب کردینا ہی ان کا غالب آنا اور اپنے دشمنوں پر فتح پانا ہے۔ پس یہ امت حق پر قائم رہ کر ہمیشہ غالب رہے گی۔ یہاں تک کہ امر اللہ یعنی قیامت آجائے۔ اور یہاں تک کہ اس امت کے آخری لوگ سیدناعیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ہو کر مسیح دجال سے لڑائی کریں گے جیسا کہ صحیح حدیثوں میں موجود ہے۔ واللہ اعلم، (از تفسیر ابن کثیر) جہاد کے لیے اسی خوشی کے ساتھ اٹھ کھڑا ہونے کا حکم مسلمانوں کو دیا گیا ہے جس خوشی اور محبت سے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کا وہ حواری اٹھ کھڑا ہوا جس کو یہودیوں نے قتل کردیا اور سولی پر چڑھایا۔ شہادت کا درجہ اور انعام رب العزت نے بہت بڑا بتایا ہے۔ جس کی تفصیل آیت 12, 11 اور 13 میں بیان کی گئی ہے۔ اللہ ہمیں اس سعادت کو حاصل کرنے کی توفیق دے۔ آمین ثم آمین۔ الحمد للہ کہ سورة الصف ختم ہوئی۔
Top