بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mafhoom-ul-Quran - As-Saff : 1
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ لِلّٰهِ : تسبیح کی ہے اللہ کے مَا فِي السَّمٰوٰتِ : ہر چیز نے جو آسمانوں میں ہے وَمَا فِي الْاَرْضِ : اور جو زمین میں ہے وَهُوَ الْعَزِيْزُ : اور وہ زبردست ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا ہے
جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے سب اللہ کی تعریف کرتی ہیں اور وہ (کیونکہ) غالب، حکمت والا ہے
قول و فعل میں مطابقت اور جہاد کی فضیلت تشریح : آسمانوں اور زمین کے درمیان جو کچھ بھی ہے وہ سب اللہ کا تابع فرمان ہے ایک سیکنڈ کے لیے کوئی چیز اللہ کے بنائے ہوئے قانون اور حکم سے سرتابی نہیں کرسکتی اور یہی ان کی تسبیح ہے۔ کیونکہ اللہ کے غلبے، علم اور حکمت سے باہر کوئی چیز بھی نہیں اور نہ ہی جاسکتی ہے۔ ہر چیز اس کی قدرت کے اندر گھری ہوئی ہے۔ اور وہ کارساز واحد ہے۔ اور وہ دلوں کے بھید بھی خوب اچھی طرح جانتا ہے اس لیے وہ خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ کس کے قول و عمل میں کتنا تضاد ہے۔ کیونکہ مسلمان مخلص ہوتا ہے جب کہ منافق کہتا کچھ ہے کرتا کچھ ہے اور یہ رویہ اللہ کو کسی صورت بھی پسند نہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ اگرچہ وہ نماز پڑھتا ہو، روزہ رکھتا ہو اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہو۔ یہ کہ جب بولے جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، اور جب کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے۔ (مسلم و بخاری) دراصل یہاں ان لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو بظاہر بڑے دعوے کرتے تھے کہ اگر ہمیں یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ کا پسندیدہ عمل کون سا ہے تو ہم ضرور وہ عمل کریں تاکہ اللہ ہم سے راضی ہوجائے۔ لیکن جب ان کو جہاد کا حکم دیا گیا تو ان کے منہ لٹک گئے۔ اور لگے بہانے بنانے تو ایسے لوگوں سے اللہ بےزاری کا اظہار کرتا ہے۔ اور پھر جہاد فی سبیل اللہ کی تعریف یوں کی کہ جو اللہ کی راہ میں لڑنے کے لیے اس قدر مضبوط عزم و ارادہ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں جیسے سیسہ پلائی دیوار ہو۔ ، بُنْیاَن مَّرْصُوْص، رَصْ کا مطلب ہے خوب ملا کر جوڑ دینا۔ رصاص سیسہ کو کہتے ہیں یعنی ایک ایسی دیوار کہ جس کے جوڑوں میں سیسہ پگھل کر ڈال دیا جائے کہ دیوار اس قدر مضبوطی سے جڑ جائے کہ درمیان میں کسی قسم کا کوئی سوراخ کوئی کمزوری نہ رہ جائے۔ مطلب اصل میں مثال دینے کا یہ ہے کہ جو مجاہدین اللہ کی راہ میں اللہ کی خوشنودی اور دین کی محبت میں دشمن کے مقابلے میں نکل کھڑے ہوں۔ وہ عقیدہ، ایمان، مقصد اور جانثاری میں اس قدر مخلص، مضبوط، اور پکے ارادے کے سپاہی ہوں کہ ان کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہ دے سکے۔ جذبہ ایمانی اس قدر طاقت ور ہوتا ہے کہ اللہ کی مدد بھی جوش میں آجاتی ہے تو ایسے حالات میں بھلا کوئی مقابلہ میں ٹھہر سکتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کو اللہ تعالیٰ ، انصار اللہ، کہتے ہیں۔ یعنی جو اللہ کی محبت میں اس حد تک ڈوب جائے کہ اس کو اللہ کی محبت سے زیادہ کوئی چیز اہم دکھائی نہ دے حتیٰ کہ جان جیسی پیاری چیز بھی اس کے سامنے کچھ حقیقت نہ رکھے اور وہ اس کو اللہ کی راہ میں قربان کردینے پر تیار ہوجائے تو بھلا پھر اللہ ایسے جان نثاروں کی خاص مدد کیوں نہ کرے گا گویا انہوں نے اپنی جانوں کے بدلے میں اللہ کی مہربانیاں، عنایتیں، قربتیں اور مدد کو خرید لیا ہے۔ تو یوں انہوں نے بظاہر اللہ کی، اسلام کی، دین کی اور رسول اللہ ﷺ کی مدد کی لیکن دراصل انہوں نے خود اپنی مدد کی اور اس طرح دنیا و آخرت کی تمام بھلائیوں کے حقدار ہوگئے۔ جہاد میں اگر بچ گئے تو غازی اگر کام آگئے تو شہید۔ شہید اور غازی دونوں ہی بہترین درجات کے حامل ہوتے ہیں۔ بھلا ایسے، انصار اللہ، بہترین اور کامیاب بندوں کا ان نکمے منافق اور ڈرپوک لوگوں سے کیا مقابلہ ہوسکتا ہے جو صرف زبانی کلامی جہاد کی بات کرتے ہیں۔ جب وقت آتا ہے تو دنیا جہان کے حیلے بہانے بنانے لگتے ہیں کہ کسی طرح جنگ میں جانے سے بچ جائیں۔ گویا اگر موت کا وقت آگیا ہے تو وہ جنگ میں نہ جا کر بچ جائیں گے جب کہ موت کا وقت تو مقرر ہوچکا ہے اس وقت مقرر ہوگیا تھا جب ہماری زندگی کی ابتدا ماں کے پیٹ میں ہوئی تھی یہ بات تو بالکل سچ ہے۔ نزول قرآن کے وقت ان حقائق کا کسی کو بالکل علم نہ تھا جو انکشافات قران پاک میں کیے گئے ہیں۔ مثلاً جینی کوڈ، زندگی کی خصوصیات کا وہ راز ہوتا ہے جو پیدا ہونے والے جسمیہ میں ودیعت ہوتا ہے۔ اسی طرح سابقہ اقوام اور انبیاء کے بارے میں بالکل صاف اور سچی کہانیاں بتائی گئی ہیں تاکہ ہم بعد میں آنے والے ان کے حالات اور واقعات کو جان کر اپنی راہیں درست کرسکیں اور اللہ کے غضب سے بچ سکیں۔
Top