Mafhoom-ul-Quran - Al-An'aam : 90
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ١ؕ قُلْ لَّاۤ اَسْئَلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْعٰلَمِیْنَ۠   ۧ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو هَدَى : ہدایت دی اللّٰهُ : اللہ فَبِهُدٰىهُمُ : سو ان کی راہ پر اقْتَدِهْ : چلو قُلْ : آپ کہ دیں لَّآ اَسْئَلُكُمْ : نہیں مانگتا میں تم سے عَلَيْهِ : اس پر اَجْرًا : کوئی اجرت اِنْ : نہیں هُوَ : یہ اِلَّا : مگر ذِكْرٰي : نصیحت لِلْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان والے
یہ وہ (انبیاء) ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی تھی تو تم انہی کی ہدایت کی پیروی کرو۔ کہہ دو کہ میں تم سے اس ہدایت کا صلہ نہیں مانگتا۔ یہ تو صرف تمام جہاں کے لوگوں کے لیے نصیحت ہے۔
نبی کی صفات، اللہ کی کتاب، انسان کا انجام تشریح : جیسا کہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے بہترین عقائد، بہترین اعمال اور بہترین اجر وثواب اور اللہ کی طرف سے دیے گئے انعامات کا ذکر بڑی تفصیل سے ہوچکا ہے۔ اسی طرح ان آیات میں دہرایا جا رہا ہے کہ اہل عرب اور یہود اخلاق و کردار کی بدترین مثال بن چکے تھے جب رسول اللہ ﷺ کو رسالت ملی تو وہ نہ ان کو ماننے کو تیار تھے اور نہ ہی ان پر نازل ہونے والی کتاب قرآن مجید کو ماننے کو تیار تھے تو ایسے ہی لوگوں کو بتایا جا رہا ہے کہ جس طرح پہلے سیدنا موسیٰ پر تورات نازل ہوئی تھی جو اخلاق، کردار، نیک اطوار اور نجات کی راہیں بتانے والی اللہ کیطرف سے نازل شدہ کتاب تھی اسی طرح قرآن مجید بھی انسان کی نجات اور دنیا و آخرت میں کامیابیاں حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے اور پھر یہ کتاب آخری کتاب ہے جو اس پر یقین کرے، عمل کرے گا، مکمل طور پر اللہ کا پسندیدہ بندہ بن جائے گا لیکن جو انکار کرے گا وہ دنیا میں عارضی خوشیوں، راحتوں اور سیر و تفریح میں پھنس کر دنیا کا ہی بندہ بن جائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کی جب جان نکلتی ہے تو اذیت ناک طریقہ سے نکلتی ہے اور پھر بالکل خالی ہاتھ جب اگلے جہاں میں پہنچتے ہیں تو سوائے گناہوں کے کچھ ان کے پاس نہیں ہوتا کیونکہ دنیا کی کوئی چیز آخرت میں کام نہیں آتی، سوائے نیک اعمال کے اور وہ اس لحاظ سے بالکل خالی ہوتے ہیں۔ ان کے اپنے بنائے ہوئے معبود ان کو کہیں دکھائی نہیں دیتے یہ نقشہ ہے مشرک لوگوں کا توقرآن انسان کو ہوش دلاتا ہے کہ اللہ کو یاد کرو۔ اس کے سامنے جھکو، اسی سے مانگو اور صرف اسی کی عبادت کرو، کیونکہ اسی میں بندے کی نجات ہے، دنیا کا سکون اور آخرت کا ہمیشہ کا آرام صرف اسی راستہ میں ہے جس کا سبق اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں دیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی سیرت و کردار سے ایسی اچھی مثالیں پیش کیں کہ جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تمام دنیا کے انسانوں کے لیے روشنی کا مینار ثابت ہو رہی ہے۔ ہر عقل مند شخص مانتا ہے کہ یہی سیدھا راستہ ہے اور اسی میں دنیا و آخرت کے لیے بھلائیاں ہیں۔ دنیا تو انتہائی مختصر قیام کی جگہ ہے، مگر یہ چھوٹا سا قیام بڑا اہم ہے کیونکہ آخرت میں صرف ان اعمال کا بدلہ ملے گا جو یہاں کیے جائیں گے اس لیے نیک، پرہیزگار اور عقل مند لوگ ہر وقت موت کو یاد رکھتے ہیں تاکہ گناہوں سے بچے رہیں۔ کتب تاریخ میں ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا اصم (رح) تعالیٰ جہاد کے لیے تیار ہوئے اپنی بیوی سے پوچھا کہ ” تمہارے لیے کتنا راشن چھوڑ جاؤں تاکہ میری غیر موجودگی میں تمہیں تکلیف نہ ہو۔ اس نیک بندی نے جواب دیا کہ ” آپ میری زندگی بھر کے لیے راشن کا بندوبست کردیں “۔ حاتم اصم فرمانے لگے کہ ” ارے اللہ کی بندی ! تیری زندگی تو میرے اختیار میں نہیں ہے لہٰذا مجھے کیا علم کہ تو کب تک زندہ رہے گی “ ؟ بیوی نے جواباً کہا کہ ” اگر میری زندگی آپ کے اختیار میں نہیں تو میری روزی آپ کے اختیار میں کیسے ہے جس کا آپ انتظام کرنا چاہتے ہیں۔ بس جس مالک الملک کے قبضہ قدرت میں کسی جاندار کی زندگی اور موت ہے اسی کے ذمہ اس کی رزق رسانی بھی ہے۔ لہٰذا آپ اس بات کی فکر نہ کریں اور اپنے مبارک سفر پر رانہ ہوجائیں۔ “ یہ واقعہ تو توکل کی انتہا کو ظاہر کرتا ہے مگر عام انسانوں کے لیے توکل کے ساتھ احتیاط کی بھی تاکید کی گئی ہے جیسا کہ فرمان ہے کہ اگر اونٹ کو کھلا چھوڑو تو اس کی ٹانگ ضرور باندھ دو ۔ ذکرِ الٰہی کی فضیلت اور برکت کے بارے میں حدیث شریف ہے۔ ” سیدنا معاذبن جبل ؓ فرماتے ہیں کہ آدمی نے کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو ذکر الہٰی سے بڑھ کر اسے اللہ کے عذاب سے نجات دینے والا ہو “۔ (موطا امام مالک) آخر میں پوری بحث کو یوں سمیٹتے ہیں کہ کسی بھی نبی نے کبھی غلط تعلیمات ہرگز نہیں دیں۔ البتہ ان کی امتوں نے ان کے بعد ان کی تعلیمات کو بدل دیا اور ان کی دی ہوئی کتابوں کو بھی بالکل بدل دیا جیسا کہ یہودیوں نے مطلب کی باتیں مان لیں اور دوسری باتیں چھوڑ دیں اور محمد رسول اللہ ﷺ کے بارے میں جو کچھ نشانیاں ان کی کتاب میں دی گئی تھیں سب چھپانے لگے بلکہ لوگوں کو گمراہ کرنا شروع کردیا اور قرآن مجید سے بھی انکار کرنے لگے۔ جب کہ قرآن مجید کے بارے میں بھی ان کی کتاب میں بتایا گیا تھا۔ قرآن حکیم نور ہدایت کا مجسمہ ہے اس کو ماننے والے اس پر عمل کرنے والے ہی نجات حاصل کریں گے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ اس پر وحی نازل ہوتی ہے تو وہ بہت بڑا جھوٹا اور ظالم ہے کیونکہ وحی کا سلسلہ سیدنا محمد ﷺ پر ختم ہوچکا ہے وہ آخری نبی ہیں۔ آخری نبی اور قرآن سے انکار کرنے کا مطلب اصل میں اللہ تعالیٰ کا انکار ہے۔ تو ایسے تمام لوگ سزا کے مستحق ہوں گے۔ آخر میں حشر کا ایک منظر پیش کیا گیا ہے کہ کس طرح ہر شخص اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے حضور حاضر ہوگا اور سزا و جزا پائے گا۔ اس دن ہر شخص ایسے ہی تنہا ہوگا جیسے دنیا میں آتے ہوئے تنہا ہوتا ہے، اس لیے بار بار تاکید کی گئی ہے کہ آخرت کو یاد رکھو دنیا کے عیش و آرام میں کھو کر اللہ کی عبادت اور آخرت کے دن کے حساب کو ہرگز نہ بھول جاؤ اسی میں نجات ہے۔
Top