Mafhoom-ul-Quran - Al-An'aam : 82
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْۤا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ۠   ۧ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا : نہ ملایا اِيْمَانَهُمْ : اپنا ایمان بِظُلْمٍ : ظلم سے اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ لَهُمُ : ان کے لیے الْاَمْنُ : امن (دلجمعی) وَهُمْ : اور وہی مُّهْتَدُوْنَ : ہدایت یافتہ
جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو (شرک کے) ظلم کے ساتھ نہیں ملایا ان کے لیے امن اور سکون ہے اور وہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں۔
سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی فضیلت، اللہ کی مہربانیاں اور خوشخبری تشریح : ان آیات میں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی تعلیمات، ان کی فضیلت اور پھر ایمان کی برکتیں، ان برکتوں میں سکون قلب کے علاوہ نیک آباؤ اجداد، آل اولاد اور عزیز و اقربا بھی شامل ہیں آخر میں آنحضرت ﷺ کو خوشخبری دی گئی ہے۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں کچھ معلومات پچھلی آیات میں دی گئی ہیں۔ سب سے بڑی فضیلت جو رب تعالیٰ نے ان کو دی وہ تھی راہ ہدایت کا تحفہ، پھر ان کی تعلیمات جن کی بنیاد توحید، یعنی اللہ کا واحد ہونا۔ اس کے ساتھ کسی بھی چیز، مخلوق یا نباتات و حیوانات کو شریک نہ کرنا۔ اللہ بس ایک ہی ہے ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے شرک کو بہت بڑا ظلم کہا ہے کیونکہ ایمان میں سکون ہے جب کہ شرک کرنے والے کو نہ اس جہان میں سکون ملے گا اور نہ آخرت میں نجات ملے گی۔ سورة الانعام کی آیت 82 میں صاف الفاظ میں بتا دیا گیا ہے۔ ” جن لوگوں نے یقین کرلیا اور اپنے یقین میں کوئی نقصان (شرک) نہیں ملایا انہی کے لیے امن و سکون ہے اور وہی سیدھی راہ پر ہیں۔ “ پھر صاف طور پر فرمایا کہ اللہ رب العزت دانا ہے خبردار ہے۔ وہی درجات کو بلند کرنے والا ہے اس میں کسی کا بھی ذاتی کمال شامل نہیں، اللہ رب العزت نے پوری قوم میں سے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو نبوت کے لیے چن لیا پھر ان کی ذاتی ثابت قدمی، نیک فطرت، انسان دوستی اور روحانی پاکیزگی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے درجات بلند کردیے ان پر اپنے فضل و کرم اور رحمتوں کی اتنی بارش کی کہ تمام نبیوں میں ان کو ممتاز کیا اور ان کی نسل سے باقی انبیاء پیدا کیے جن کا ذکر یہاں کیا گیا اور وہ تعداد میں 17 ہیں۔ سیدنا نوح (علیہ السلام) سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے جد امجد ہیں۔ دل کی پاکیزگی۔ اس کا تعلق سیدھا اللہ سے ہونا یہ انسانی کمال کی نشانی ہے۔ جسے یہ حاصل ہوجائے اسے اللہ تعالیٰ اپنی کتاب اور شریعت دے کر اپنا رسول بنا دیتا ہے۔ ہر رسول نبی ہوتا ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح ولی تو بہت لوگ ہوسکتے ہیں، یعنی ولی، نبی اور پھر رسول کا درجہ آتا ہے۔ سیدنا محمد ﷺ ولی، نبی اور رسول سب کچھ ہیں۔ نبوت اور رسالت آپ پر ختم ہوچکی ہے۔ آیت 89 مکہ میں ہجرت سے پہلے نازل ہوئی تھی جس میں محمد ﷺ کو خوشخبری دی گئی ہے کہ ” اگر یہ مکہ کے لوگ آپ کی ان باتوں کو نہیں مانتے تو کوئی فکر کی بات نہیں ہم نے اور لوگوں کو پہلے ہی مقرر کردیا ہے جو آپ کی کتاب اور شریعت کو دل و جان سے قبول کریں گے اور آپ کو سچا نبی مانیں گے۔ “ یہ اشارہ ہے اس وقت کے انصار و مہاجرین کی طرف اور قیامت تک ہونے والے تمام مسلمانوں کی طرف۔ کتنا بڑا اعزاز اللہ نے ہم مسلمانوں کو دیا ہے۔ اس عزت اور احترام کے لائق بننے کے لیے ہمیں اپنے کردار، روح، اعمال اور زندگیوں کو اسی معیار پر لانا چاہیے کہ جس کی وجہ سے ہم امت محمدی میں پیدا کیے گئے اور دین ِ ابراہیمی کے پیروکار بنائے گئے۔ اگر ہم قرآن و سنت سے دور ہوگئے تو یہ بہت بڑا ظلم ہم نہ صرف اپنے اوپر کریں گے بلکہ اپنی آنے والی تمام نسلوں پر بھی کریں گے جیسا کہ سورة الانعام کی آیت 88 میں اللہ تعالیٰ صاف صاف فرما رہا ہے : ” یہ اللہ کی ہدایت ہے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور اگر یہ لوگ شرک کرتے تو جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ ضائع ہوجاتا۔ “ اگر ولی پیغمبر راہ سے بھٹک جانے پر عتاب الٰہی کا شکار ہوسکتے ہیں تو ہم عام لوگ صرف امت محمدی ﷺ ہونے پر بخشے نہ جائیں گے بلکہ ہمارا فرض اور بھی زیادہ ہوجاتا ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں تاکہ فلاح داریں حاصل کرسکیں اگر دنیا میں اپنے آپ کو دنیا کی تمام آلائشوں سے بچا کر رکھیں گے تو دنیا میں بھی سکون پائیں گے اور آخرت میں نجات حاصل ہوگی۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی مثال ہمارے سامنے ہے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کی راہ میں ماں باپ، برادری اور وطن چھوڑ دیا، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں اپنی برادری سے بہترین برادری اور اس وطن سے بہترین وطن عطا فرمایا۔ آخرت کے درجات اور رحمتیں علیحدہ ہوں گی۔ پھر دنیا میں اتنا بڑا شرف اور درجہ دیا گیا کہ آپ کے بعد جس قدر رسول و انبیاء بھیجے گئے وہ سب کے سب آپ کی ہی اولاد میں سے بھیجے گئے اور سیدنا نوح (علیہ السلام) بھی آپ کے ہی جد امجد مانے جاتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ہدایت پانے اور اس پر قائم رہنے کے لیے کردار کی مضبوطی اور روح کی پاکیزگی بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے اللہ سے ہر وقت دعا کرتے رہنا چاہیے۔ حدیث میں آتا ہے : ” سیدنا سفیان بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! مجھے اسلام کے بارے میں کوئی ایسی بات بتا دیجیے کہ آپ ﷺ کے بعد پھر میں اس کے بارے میں کسی اور سے سوال نہ کروں۔ ؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ” تو کہہ کہ میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پر ہمیشہ قائم رہ۔ “ (صحیح مسلم) مطلب یہ ہے کہ توحید الٰہی پر مکمل یقین روحانی قوت کا سرچشمہ ہے۔ یہ قوت برائیوں سے بچاتی ہے۔ اصلاح، اتحاد اور تنظیم کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور دل کا سکون تو اس میں ہے انسان تمام فکروں، پریشانیوں اور وہموں سے بالکل آزاد ہوجاتا ہے، جب مسلمان دن میں پانچ مرتبہ نماز کے ذریعے اللہ سے ملاقات کرتا ہے۔ اللہ سے اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے معافی مانگتا ہے پھر ہر کام میں اس سے مدد طلب کرتا ہے تو پھر پریشانی کی کیا وجہ باقی رہ جاتی ہے۔ بس ہم اس کے ہیں اور وہ ہمارا ہے۔
Top