Mafhoom-ul-Quran - Al-An'aam : 74
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِهَةً١ۚ اِنِّیْۤ اَرٰىكَ وَ قَوْمَكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا اِبْرٰهِيْمُ : ابراہیم لِاَبِيْهِ : اپنے باپ کو اٰزَرَ : آزر اَتَتَّخِذُ : کیا تو بناتا ہے اَصْنَامًا : بت (جمع) اٰلِهَةً : معبود اِنِّىْٓ : بیشک میں اَرٰىكَ : تجھے دیکھتا ہوں وَقَوْمَكَ : اور تیری قوم فِيْ ضَلٰلٍ : گمراہی مُّبِيْنٍ : کھلی
اور (وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے) جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر سے کہا کیا تم بتوں کو معبود بناتے ہو ؟ میں دیکھتا ہوں کہ آپ اور آپ کی قوم کھلی گمراہی میں ہیں۔
سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ تشریح : جیسا کہ پچھلی آیات میں بتایا گیا ہے کہ تلاش کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ راہنمائی ضرور کرتا ہے اور اس سلسلہ میں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی مثال اللہ نے قرآن مجید میں دی ہے۔ قرآن مجید میں سبق دینے کے لیے بیشمار قصے پرانی قوموں کے بیان کیے گئے ہیں۔ انہیں میں سے ایک نہایت اہم قصہ جد امجد سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا توحید پر ایمان لانے اور اس کی تبلیغ کرنے کا بیان کیا جا رہا ہے۔ جیسا کہ انسانی فطرت میں شامل ہے کہ وہ جماعت یا گروہ کی صورت میں زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں پھر اس گروہ کا کوئی سردار بھی بن جاتا ہے اور زندگی گزارنے کے کچھ طریقے اور رسم و رواج بنالیے جاتے ہیں اسی طرح شہر ارجس کی آبادی تقریباً پانچ لاکھ تھی صنعتی اور تجارتی شہر تھا، مذہب شرک تھا، یعنی ار کے آثار قدیمہ میں ملنے والے کتبوں سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً پانچ ہزار خدائوں کی عبادت کرتے تھے۔ انتہائی بدکردار، موقع پرست، خود غرض اور بگڑی ہوئی قوم تھی اس گندے اور غیر سنجیدہ ماحول میں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام آزر تھا۔ جیوش انسائیکلوپیڈیا کی روایت کے مطابق وہ، یعنی آزر صرف بت پرست ہی نہیں بلکہ بت ساز (بت بنانے والے) اور بت بیچنے والے بھی تھے۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا ملک کلدا نیابت پرستی اور ستارہ پرستی کرتے تھے۔ اللہ رب العزت نے اس بگڑی ہوئی مشرک قوم کی ہدایت کے لیے انہیں میں سے ایک پیغمبر چن لیا اور ان کو اس بات کی عقل، سمجھ اور طاقت و ہمت کی کہ اللہ کی حقیقت کو سمجھ کر توحید کی تعلیم دینی شروع کریں۔ یہ بڑا مشکل کام تھا لیکن جہاں اللہ کی مرضی ہو وہاں کوئی کام مشکل نہیں۔ ارشاد الہٰی ہے ” کہ دیکھو ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے کیسی عقلمندی کی بات کی۔ “ کہ ” کیا تم مٹی کی بنائی ہوئی مورتیوں کی پوجا کرتے ہو جو نہ تمہیں فائدہ پہنچاسکیں نہ نقصان۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ تم اور تمہاری قوم کھلی ہوئی بہت بڑی غلطی میں پھنسے ہوئے ہو۔ کتنی بڑی بےقوفی ہے کہ خود اپنے ہاتھ سے بت بنایا اور اسی کی عبادت کرنے لگے۔ “ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے بتوں کو چھوڑا تو ہم نے اس پر آسمانوں اور زمین کے بھید ظاہر کرنے شروع کردیے اور بتایا کہ جس چیز کو دیکھو وہ الگ اپنا ایک نظام رکھتی ہے اور پھر یہ سارے نظام ایک بہت ہی بڑے نظام کے تحت چل رہے ہیں اور اس سارے نظام کا چلانے والا اِلٰہُ العٰلمین ہے جس کو ہم اپنی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے بلکہ اس کی بنائی ہوئی مخلوقات اور پوری کائنات کو دیکھ کر اللہ کو پہچان سکتے ہیں۔ جیسا کہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے جب عقل و شعور کو کام میں لا کر غوروفکر شروع کیا تو یہی چاند، سورج اور ستارے جن کو لوگ روزانہ پوجتے تھے۔ اللہ کو ڈھونڈنے کا سبب بن گئے۔ ہوا اس طرح کہ جب اندھیرا چھا گیا تو انہوں نے ستارہ چمکتا ہوا دیکھا تو کہا یہی رب ہوسکتا ہے غروب ہونے پر پکار اٹھے کہ غروب ہوجانے والا رب نہیں ہوسکتا۔ پھر چاند کو دیکھا تو پکار اٹھے یہ بڑا ہے یہ رب ہوسکتا ہے غروب ہونے پر اس کو بھی رد کردیا دن چڑھنے پر سورج کو بےحد روشن اور بڑا دیکھ کر کہنے لگے یہ رب ہوسکتا ہے مگر جب وہ بھی غروب ہوگیا تو فرمانے لگے یہ بھی رب نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ بھی غروب ہوگیا ہے۔ اصل میں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ واقعہ اللہ کی ذات اور اس کے وجود پر غور کرنے کی بہترین دلیل ہے۔ کیونکہ قوم کو راہ پر لانے کے لیے نرمی اور دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ طریقہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے انسان کو عقل سے کام لینے اور جھوٹ اور سچ میں فرق کرنے کے لیے اختیار کیا۔ اس طرح انہوں نے توحید کی بنیاد رکھی اور اللہ کو واحد ماننے والوں کا نام انہوں نے مسلم رکھا۔ جب سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے صاف طور پر کہہ دیا ” اے لوگو ! سن لو جب اتنی بلند اور روشن چیزیں رب نہیں ہوسکتیں تو تمہارے بنائے ہوئے یہ بت کیسے الٰہ ہوسکتے ہیں۔ میں تمہارے ان سب خدائوں کا انکار کرتا ہوں اور اپنے رب اللہ عزیز و حکیم کے آگے سر جھکاتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔ یوں انہوں نے اپنی قوم کے تمام خدائوں کو ٹھکرا دیا اور توحید کی بنیاد رکھ دی۔ اس پر ساری کی ساری قوم ان کے خلاف کھڑی ہوگئی۔ کیونکہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اس قوم کو راہ راست پر لانے کے لیے مقرر کردیے گئے تھے اس لیے اللہ کی مدد سے وہ ان کو ہدایت کی طرف بلاتے رہے، سمجھاتے رہے۔ جب ان کی قوم نے ان سے کہا کہ اگر تم نے ہمارے خدائوں کو نہ مانا تو وہ تم سے ناراض ہوجائیں گے تو اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ” مجھے یقین ہوچکا ہے کہ تمہارے یہ خدا میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے اور نہ ہی میرا کوئی بھلا ہی کرسکتے ہیں کیونکہ یہ مجبور، بےبس ہیں۔ ہاں ! اللہ جو چاہے کرسکتا ہے وہی میرا رب ہے اسی کے علم میں ہر چیز ہے وہ قدرت رکھتا ہے تکلیف پہنچانے کی اور سب کچھ جانتا ہے۔ کیا تمہیں اتنی بھی عقل نہیں ؟ جیسا کہ ہر جاہل اور مشرک قوم کا کام ہے کہ بجائے سیدھی راہ پر چلنے کے الٹا پیغمبر سے لڑتے جھگڑتے ہیں بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔ ان کی قوم بھی لڑنے جھگڑنے پر اتر آئی۔ تب انہوں نے کہا کہ تمہارے یہ بےجان خدا میرا کیا بگاڑ سکتے ہیں ؟ جبکہ میرا اللہ جو چاہے کرسکتا ہے تمام آسمان و زمین ہر قسم کی مخلوقات سب اسی کے اختیار میں ہیں اس لیے اس سے ڈرنا چاہیے۔ پھر انہوں نے کہا کہ تم خود فیصلہ کرو میں مطمئن اور پرسکون ہوں یا کہ تم لوگ پرسکون ہو۔ ایک مضبوط، معقول اور انتہائی طاقت ور کو سہارا بنانا زیادہ بےفکری اور سکون کا باعث ہوسکتا ہے یا کہ بےکار، بےجان اور مجبور چیزوں کو اپنا سہارا بنانا عقلمندی ہے ؟ مبلغین اسلام کے لیے ہدایت ملتی ہے کہ اپنی قوم سے سخت نہیں نرم یا دلیل اور موثر رویہ اختیار کریں۔ دوسرا یہ کہ تبلیغ و دعوت میں حکمت، تدبر اور مشاہدات سے کام لینا سنت انبیاء ہے۔ تیسرا یہ کہ اصلاح اعمال کی دعوت اپنے گھر اور قرابتداروں سے شروع کرنی چاہیے۔ چوتھا یہ کہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے توحید کی بنیاد رکھ کر مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم کا درجہ دیا اور پھر ثابت ہوگیا کہ سچی تلاش اور ہدایت کی لگن سے جو کچھ بھی کیا جائے۔ اللہ رب العزت مدد کرتا ہے اور روشن راہیں کھول دیتا ہے۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے اس قدر بگڑے ہوئے اور کفر و شرک سے بھرے ہوئے معاشرے میں آنکھ کھولی اور پرورش پائی، مگر سچی لگن نے ان کے لیے سچائی امن اور سلامتی کی راہیں کھول دیں اور ان کو پوری انسانیت کے لیے مقرب ترین برگزیدہ پیغمبر بنایا۔ انہوں نے انسان کو توحید باری تعالیٰ کا سبق دیا۔ ان آیات میں حق کی دعوت دینے کا ایک بہترین انداز بیان کیا گیا ہے جو کہ اہل عرب کے لیے بڑا دلنشین ثابت ہوا، اسی لیے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) تمام عرب کے جد امجد کہلائے اور پورا عرب ان کی تعظیم کرتا چلا آیا ہے۔
Top