Mafhoom-ul-Quran - Al-An'aam : 63
قُلْ مَنْ یُّنَجِّیْكُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ تَدْعُوْنَهٗ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً١ۚ لَئِنْ اَنْجٰىنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں مَنْ : کون يُّنَجِّيْكُمْ : بچاتا ہے تمہیں مِّنْ : سے ظُلُمٰتِ : اندھیرے الْبَرِّ : خشکی وَالْبَحْرِ : اور دریا تَدْعُوْنَهٗ : تم پکارتے ہو اس کو تَضَرُّعًا : گڑگڑا کر وَّخُفْيَةً : اور چپکے سے لَئِنْ : کہ اگر اَنْجٰىنَا : بچا لے ہمیں مِنْ : سے هٰذِهٖ : اس لَنَكُوْنَنَّ : تو ہم ہوں مِنَ : سے الشّٰكِرِيْنَ : شکر ادا کرنے والے
(اے محمد ﷺ ! ) فرمادیں کہ صحرا اور سمندر کی تاریکیوں سے کون تمہیں بچاتا ہے ؟ کون ہے جس سے مصیبت کے و قت تم گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے دعائیں مانگتے ہو ؟ اور کہتے ہو کہ اگر تو نے ہمیں اس سے بچالیا تو ہم ضرور شکر گزار ہوں گے۔
عذاب کی اقسام تشریح : ان آیات میں کفار کی ہٹ دھرمی کا ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو وعدہ لے رکھا ہے تمام انسانوں سے، یعنی ہر بندہ فطرتاً اللہ کو ہی خالق ومالک مانتا ہے مگر پھر بھی کفار شرک، کفر اور نافرمانی سے باز نہیں آتے تو ایسے لوگوں کو آپ ﷺ صاف صاف بتا دیں کہ میں نے توحید کا پیغام اور اللہ کی حاکمیت قدرت اور طاقت کے بارے میں خوب وضاحت کردی ہے پھر بھی جو کفر کرتے ہیں تو ان کو عقل سے کام لے کر اور اللہ کی دی ہوئی مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایمان، سلامتی اور نجات کا راستہ اختیار کرلینا چاہیے ورنہ پھر وہ گھڑی، یعنی عذاب کی گھڑی بھی اپنے مقررہ وقت پر آنے والی ہے جب تم سب لوگوں کو اپنے کئے ہوئے اعمال کا نتیجہ مل جائے گا اور یہ بالکل یقینی بات ہے۔ تاکید کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” وہ (شیطان) ان لوگوں سے وعدے کرتا ہے اور انہیں امیدیں دلاتا رہتا ہے مگر شیطان کے سارے وعدے فریب کے سوا کچھ نہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور یہ لوگ اس سے بچنے کی کوئی اور جگہ نہ پائیں گے۔ “ ( سورة النساء 121-120 ) ان آیات میں پوری طرح واضح کردیا گیا ہے کہ قرآن پاک کا ہر لفظ سچا ہے اس میں کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں کہ جس پر شک و شبہ کیا جائے، قرآن کے تمام احکامات بالکل سچ اور انسانوں کے لیے نہ صرف سچ بلکہ بھلائی، آسانی اور کامیابی کی طرف بھی لے جاتے ہیں، مثلاً اللہ کو ایک مان کر ہر مصیبت اور پریشانی میں صرف اسی سے ہی مدد مانگنا، آخرت اور حساب کتاب کے دن کو اگر کوئی ہر قت یاد رکھے اور اس دن پر یقین رکھے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ سچ نہ بولے، چوری کرے، کسی کا حق مارے، چغلی کرے، قتل و غارت اور دنگا فساد پھیلائے۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ پورے یقین اور کوشش سے قرآن کے تمام احکامات جو رسول ﷺ نے بتائے ہیں ان پر عمل کیا جائے تاکہ قیامت کے دن کی سختی سے بچ کر نجات پاسکیں۔ کیونکہ اس زندگی کے بعد عمل کا وقت ختم ہوجائے گا اور صرف سزا یا جزا، کا ہی وقت رہ جائے گا۔ اس لیے شیطان کی پیروی نہیں کرنی چاہیے بلکہ نبی اکرم ﷺ کی پیروی کر کے دنیا و آخرت کی بھلائیاں حاصل کرلینی چاہییں۔ صاف صاف بیان کردیا گیا ہے کہ عالم ازل، عالم ظاہر اور عالم آخر کی ہر چیز ہر عمل اور ہر قسم کی مخلوقات کا ہر قسم کا حساب کتاب لوح محفوظ میں درج کردیا جاچکا ہے۔ دنیا وجود میں آئی تو وقت مقرر کے مطابق، دنیا چل رہی ہے تو رضائے الٰہی کے مطابق ختم ہوگی تو مقررہ وقت کے مطابق۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا وقت مقرر کر رکھا ہے کوئی کام اس کے حکم کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ یہ سب کچھ قرآن مجید میں تفصیل سے بیان کیا جاچکا ہے، لہٰذا اس زندگی کو غنیمت سمجھ کر نیکیاں، بھلائیاں اور آخرت میں نجات حاصل کرنے کا پورا پورا سامان اکٹھا کرلینا چاہیے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے حساب کتاب ہوگا اس لیے حساب کتاب ضرور ہوگا اور اس دن کی تیاری اسی دنیا میں ہوسکتی ہے بعد میں نہیں ہوسکتی۔ دنیا میں تین قسم کے عذاب الٰہی ہوسکتے ہیں۔ ایک جو اوپر سے آئے جیسا کہ سیدنا نوح (علیہ السلام) کی قوم پر بارش کا اور قوم عاد پر ہوا کا طوفان، قوم لوط پر پتھر برسائے گئے، نبی اسرائیل پر مینڈک اور خون کی بارش کی گئی، اصحاب فیل پر پرندوں نے کنکریاں برسائیں۔ اسی طرح نیچے کے عذاب میں قوم فرعون اور قارون کی مثال موجود ہے ایک پانی میں غرق ہوگیا اور دوسرا اپنے خزانوں سمیت زمین میں دھنس گیا۔ یہ دوسری قسم کا عذاب ہے جو قوموں کو نیچے سے دیا گیا ہے اور تیسری قسم کا عذاب یہ ہے کہ قوم پوری کی پوری کئی گروہوں میں بٹ جائے اور وہ آپس میں لڑ لڑ کر ختم ہوجائے۔ یہ بھی بڑا سخت عذاب الٰہی ہے۔ اگر پچھلی قوموں پر نافرمانی، بےراہروی اور بد اعمالی (برے کام) کی وجہ سے عذاب آسکتے ہیں تو ہم بھی اللہ کی بنائی ہوئی مخلوقات ہیں۔ ہمارے پاس بھی ڈرانے کے لیے اور خوشخبری سنانے کے لیے رسول اللہ ﷺ بھیجے جاچکے ہیں۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ رسول کا کام ہے ہدایت کی رہنمائی جزا سزا تو خود اپنے اعمال سے ملے گی اور یہ ضرور ملے گی جیسا کہ پچھلی قوموں کے ساتھ ہوچکا ہے اور آخرت میں وعدے کے مطابق ہو کر رہے گا۔
Top