Mafhoom-ul-Quran - Al-An'aam : 131
ذٰلِكَ اَنْ لَّمْ یَكُنْ رَّبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى بِظُلْمٍ وَّ اَهْلُهَا غٰفِلُوْنَ
ذٰلِكَ : یہ اَنْ : اس لیے کہ لَّمْ يَكُنْ : نہیں ہے رَّبُّكَ : تیرا رب مُهْلِكَ : ہلاک کر ڈالنے والا الْقُرٰي : بستیاں بِظُلْمٍ : ظلم سے (ظلم کی سزا میں) وَّاَهْلُهَا : جبکہ ان کے لوگ غٰفِلُوْنَ : بیخبر ہوں
(اے محمد ﷺ ! یہ جو پیغمبر آتے رہے اور کتابیں نازل ہوتی رہیں) یہ اس لیے کہ آپ کا رب ایسا نہیں کہ بستیوں کو ظلم سے ہلاک کر دے اور وہاں رہنے والوں کو کچھ بھی خبر نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ بےانصافی نہیں کرتا تشریح : اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا اور اس نے اپنے نفس پر ظلم کو حرام قرار دیا ہے اس نے اپنی توحید کا پرچار کرنے کے لیے انبیائے کرام کو مبعوث فرمایا پھر بھی جو برے کاموں سے باز نہ آئے ان پر دنیا میں عذاب آئے جیسا کہ حضر (علیہ السلام) ت نوح (علیہ السلام) کی قوم، سیدنا لوط کی قوم یہ سب عبرت دلانے کے لیے کافی ہیں اور پھر اللہ کا انصاف اس قدر ٹھیک ہے کہ ہر شخص کو قیامت کے دن اپنے اعمال کے مطابق درجات ملیں گے۔ کسی کو جنت کا نچلا درجہ، کسی کو درمیانہ اور کسی کو جنت الفردوس میں جگہ ملے گی، اسی طرح دوزخ میں بھی درجات ہیں اور عذابوں کے بھی درجات ہیں۔ یہ سب بالکل سچ اور اٹل ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ” اس وقت جس کا نامہ اعمال سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہے گا۔ لو دیکھو میرا نامہ اعمال پڑھ لو۔ میرا تو یہ عقیدہ تھا کہ مجھے میرا حساب ضرور ملے گا۔ تو وہ شخص اپنی مرضی کے عیش میں ہوگا۔ اونچے درجہ کی جنت میں جس میں پھلوں کے گچھے جھکے پڑے ہوں گے۔ (ان سے کہا جائے گا) کھائو اور پیو مزے کے ساتھ یہ صلہ ہے ان اعمال کا جو تم گزرے ہوئے دنوں میں کرچکے ہو۔ “ (سورۃ الحاقہ آیات : 19 تا 24)
Top